محمداعظم شاہد
غزہ پٹی میں بے قصور فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی حملے برابر جاری ہیں۔پوری دنیا میں امن پسند لوگ اسرائیل کی مذمت میں اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ جنگ بندی کا مطالبہ پُرزور طور پر ہورہا ہے۔اقوام متحدہ کی جنگ ختم کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد فلسطینیوں کی نسل کشی genocideروکنے جنگ بندی کی آواز بلند کی گئی ہے۔مظاہرے ہورہے ہیں۔صدائے حق و انصاف کو دبانے کی کو ششیں بھی ہورہی ہیں۔ اسرائیلی جنگی حملوں کا سلسلہ ہر گزرتے شب و روز کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایک مہینے سے جاری مسلسل وحشیانہ جنگی حملے میں تقریباً دس ہزار فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔جن میں اکثریت معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھے افراد کی ہے۔ ان جنگی حملوں میں پچیس ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں، جن کا علاج ایک مشکل اور آزمائشی مسئلہ بن گیا ہے۔ انتقام کی آگ میں جلنے والا اسرائیل اسپتالوں اور ایمبولینسوں کو اپنی بمباری کا نشانہ بنارہا ہے۔ اسرائیل بڑے زعم و تکبر سے اعلان کررہا ہے کہ غزہ پر زمینی حملوں کے لیے چاروں طرف سے غزہ پٹی کا محاصرہ کرلیا گیا ہے۔بربریت کا کسی بھی جنگ میں اس نوعیت کا مظاہرہ شاید ہی پہلے کبھی دیکھا گیا ہو۔امریکہ کی جانب سے اسلحہ اور فوجی حمایت کے باعث اسرائیل نے جنگ بندی کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا ہے۔عالمی برادری اپنا دباؤ بنائے ہوئے ہے۔ آثار مزید بربادی و تباہی اور ہلاکتوں کے کھل کر نظر آرہے ہیں۔ممکن ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی مخالفت میں فلسطینیوں کے حامی اسلامی ممالک بالخصوص ایران اور پڑوسی ممالک (غزہ سے لگے ہوئے)جنگ میں شامل ہوجائیں گے۔افسوس کہ کچھ اسلامی ممالک محض مشاورتی اجلاس،جنگ کی مذمت اور جنگ بندی کے لیے پُرامن آواز بلند کرنے تک ہی محدود ہیں۔ ترکی اور ایران نے اسرائیل کے خلاف کھل کر سخت الفاظ میں جس حکمت عملی کا اعلان کیا ہے وہ خوش آئند ہے،مگر امریکہ اور دیگر ممالک جو اسرائیل کے حامی ہیں انھیں غزہ میں ستم رسیدہ فلسطینیوں کی حمایت ہرگز گوارا نہیں ہورہی ہے۔
حماس کے ۷/اکٹوبر کے حملے میں ایک ہزار چار سو اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔جوابی حملے میں اسرائیل نے جو تباہی مچاہی ہے وہ اس نامراد ملک کی صہیونی تخریبی ذہنیت کا کھلا اظہار ہے۔ خود کو خود مختار ثابت کرکے اسرائیل نے عالمی امن و تحفظ ِ انسانیت کے تمام رہنما اصولوں کو نظر انداز کردیا ہے۔ اپنے دفاع اور تحفظ کے آڑ میں اسرائیل قتل و خون اور غارت گری کی نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔اسرائیل جس طرح غزہ میں پھنسے بے یارو مددگار لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں اور شمالی خطہ سے جنوبی غزہ جانے کے لیے مجبور ہیں مگر نقل مکانی کے لیے راستے غیر محفوظ ہیں۔ دن رات بم باری ہورہی ہے۔ جہاں لاکھوں معصوم بچوں کا بچپن اُجڑ گیا ہے، وہیں ہزاروں مائیں اپنے بچوں سے بچھڑ گئی ہیں۔ خاندان کے خاندان ختم ہورہے ہیں۔فلسطینی نوجوانوں کے اُمنگیں اور ان کی آزادی ایک فسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ حماس کے حملے کی پاداش میں ہزاروں لاکھوں فلسطینیوں کو جنگ کا نشانہ بنانا اسرائیل کے دوغلے اور دوہرے معیار کا بہیمانہ اعلان ہے۔
اسرائیلی خود شاید یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ماضی میں ان کی کیا درگت ہوئی تھی۔ غزہ میں فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا عزم رکھنے والی اسرائیلی حکومت فلسطین اسرائیل تنازعہ کو ہمیشہ سلگائے رکھنا چاہتی ہے۔ جنگ بندی کے لیے اسرائیلی یرغمالوں کی غیر مشروط رہائی اور حماس کی خود سپردگی کا مطالبہ رکھنے والا اسرائیل کسی بھی طرح کی مصالحت اور مشاورت کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہا ہے۔اب حماس اسرائیل جنگ اپنی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے ایک بڑی جنگ کا رُخ اختیار کرنے کے ممکنات سے دوچار ہورہی ہے۔ امن عالم کے ٹھیکہ دار امریکہ اور اس کے اندھا دھند حمایتی ممالک بھی یہ حقیقت فراموش کرچکے ہیں کہ جنگ خود ہی ایک مسئلہ ہے۔جس سے کسی بھی نوعیت کے مسئلہ کا کسی بھی طرح حل یا سمادھان ممکن ہی نہیں ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حماس نے خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کیا اور فلسطینی جو اسرائیلی قید خانوں میں بند ہیں اُن کی رہائی کا مطالبہ کرنے اپنی(حماس کی) تحویل میں تمام اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کی پیش کش کو اسرائیل نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ البتہ اس پیش کش کو حماس کی بے بسی اور مجبوری قراردیا ہے۔جو جنگ بندی کے ممکنات میں بڑی واضح دشواری۔ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کا موجودہ جنگ کے دوران اپنا سفارتی موقف بھی جارحانہ رُخ اختیار کرگیا ہے، ایک ایسا ماحول بنانے کی اسرائیل کوشش میں ہے کہ وہ(اسرائیل) جو کچھ کررہا ہے وہ ہرلحاظ سے جائز ہے۔کتنی مضحکہ خیز یہ حقیقت ہے کہ جس ملک(اسرائیل)کا وجود ہی ناجائز قبضہ کا رہین منت ہے، وہ بھلا اچھے اور بُرے میں تمیز کا کیا شعور رکھے گا۔ دُنیا بھر میں امن پسند لوگ اسرائیل کے خلاف مخالفت کا مظاہرہ کرنا ہی مقصود ہے تو اسرائیلی مصنوعات Productsیا روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا کا اگر بائیکاٹ کرنے کاپختہ ارادہ کریں تو کچھ بات بنے۔اور ہمارے اپنے وطن عزیز میں ہماری جو خارجہ پالیسی فلسطینی کا ذکے لیے رہی ہے، اس سے کسی حد تک انحراف کرتے ہوئے موجودہ حکومت فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی بھی دکھا رہی ہے اور اسرائیل کی حمایت بھی کررہی ہے۔ مظلوم سے اُلفت بھی،ظالم سے بھی یارانہ، ایسی پیچیدہ صورتحال میں ظالم کی مذمت اور مظلوم سے حمایت کا ہم اظہار کریں بھی تو کیسے کریں!