1۔ ذمہ داری
وہ ہسپتال سے باہر نکل کر شاید کہیں جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ شاید اسے چکرپہ چکر آ رہے تھے۔ لوگ اس کے آس پاس سے گذر رہے تھے لیکن کسی نے اس کا حال دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ آدمی زمین پر گرنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک بوڑھے شخص نے اس آدمی کو سنبھالتے ہوئے ایک طرف کنارے پر کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ -بوڑھے شخص کی نگاہ اس آدمی کے ہاتھ پر پڑی جہاں بینڈیج لگا ہوا تھا۔ بوڑھے شخص نے پوچھا ”خون عطیہ کئے ہو؟“ اس شخص نے کہا ”گھر کی ذمہ داری خون عطیہ نہیں،خون بکواتی ہے، میری غیرت بھیک مانگنے نہیں دیتی“ اور وہ اٹھنے کی کوشش کرتا رہا اور بوڑھے شخص نے اسے کھینچ کر وہیں نیچے بٹھا لیا اور خود بھی اسی کے بغل میں بیٹھ کر سوچنے لگا ”ذمہ داری بھی عجیب ہے بلکہ عجیب تر“
2۔ بے آسرا بھوک
بچہ بلک بلک کر رو رہا تھا شاید اسے بھوک لگی تھی۔ ریکھا نے سر سے اینٹوں کی ٹوکری پھینک کر اپنے ننھے کے پاس پہنچی اور دودھ پلانے کی کوشش کرنے لگی لیکن بچہ روئے جا رہا تھا اور ریکھا کی آنکھ بھی نم تھی۔
قریب سے گذرتی سہیلی نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگی ”میں خود رات سے بھوکی ہوں ابھی تک مزدوری بھی نہیں ملی اور اس معصوم کو بھوک لگی ہے۔ کیا کروں سمجھ میں نہیں آرہا ہے، رات کو وہ پھر پیسے لے کر آیا تھا،اپنی بھوک مٹانے کے لئے، میں نے منع کردیا، اب سوچ رہی ہوں اگر اس کی بھوک مٹا دیتی تو میری اور اس معصوم کی بھوک کا انتظام کر لیتی“
3۔ ذمہ دارلوگ
وہ کافی وقت سے سڑک کے ایک کنارے کھڑا تھا اور آتی جاتی گاڑیوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ کئی احباب اس وقت سڑک پار کر رہے تھے۔ ٹریفک خوب تھی۔ ایک صاحب دور سے اس نوجوان پر نگاہیں رکھے ہوئے تھے۔ انہیں عجیب محسوس ہوا جیسے کچھ گڑبڑ ہو۔ کچھ دیر بعد ان سے رہا نہ گیا اور وہ اس نوجوان کے قریب پہنچے اور دریافت کیا ”کیا بات ہے میں تمہیں یہاں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں، تم سڑک کیوں پار نہیں کر رہے ہو، بات کیا ہے؟“ وہ نوجوان اچانک ہوئے سوالوں کے حملہ سے گھبرا گیا لیکن خود کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگا ”کچھ نہیں،ٹریفک زیادہ ہے۔ میں اس انتظار میں ہوں کہ اگر کوئی بزرگ یا دوچار بچے سڑک پار کرنا چاہیں تو میں انکی مدد کروں، اور تو کوئی بات نہیں ہے“ ان صاحب نے مسکراہٹ کے ساتھ نوجوان کی ستائش کی اور آگے بڑھتے ہوئے دل ہی دل میں کہہ رہے تھے”آج بھی ذمہ دار لوگ زندہ ہیں“