ہماچل کی حکومت بی جے پی کی ہے یا کانگریس کی؟ ہماچل کی “محبت کی دکان” میں نفرت!!! -اویسی
ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ کے سنجولی میں ایک مسجد کی تعمیر کو لے کر کافی ہنگامہ ہورہا ہے۔ چہارشنبہ کو ہماچل پردیش اسمبلی کے مانسون اجلاس میں بھی اس معاملے پر کافی گہماگہمی دیکھنے میں ملی اور کانگریس کے دو ایم ایل ایز بھی آپس میں بیان بازی نظر آئے۔ رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اس معاملے میں انہوں نے کانگریس پر نشانہ سادھا ہے ۔ ساتھ ہی اس معاملے میں شملہ کی کسم پٹی اسمبلی سے وزیر انیرودھ ٹھاکر نے اسمبلی میں رپورٹ پیش کی اور مسجد کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے کہا کہ اس کی دو منزلیں غیر قانونی ہیں۔
ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے وزیر کے بیان کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ہماچل کی حکومت بی جے پی کی ہے یا کانگریس کی؟ ہماچل کی “محبت کی دکان” میں نفرت اور نفرت! اس ویڈیو میں ہماچل کے وزیر بی جے پی کی زبان میں بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماچل کے سنجولی میں مسجد بنائی جارہی ہے، اس کی تعمیر کو لے کر عدالت میں کیس چل رہا ہے۔ سنگھیوں کے ایک گروپ نے مسجد کو توڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دراصل شملہ کے سنجولی کے ملیانہ میں کچھ دن پہلے مارپیٹ کا ایک معاملہ سامنے آیا تھا۔ یہاں ایک مقامی شخص کی مخصوص برادری کے لوگوں نے پٹائی کردی تھی۔ یہ لوگ یوپی کے رہنے والے ہیں اور چھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جب یہ معاملہ طول پکڑا تو لوگوں نے سنجولی مسجد کے باہر مظاہرہ کیا اور کہا کہ یہاں غیر قانونی تعمیرات ہوئی ہیں۔ اس معاملے پر ہنگامہ ہوا۔
ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ کے سنجولی میں مسجد کے حوالے سے ہندو تنظیموں کا جاری احتجاج تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہندو تنظیم کے لوگ جو بڑی تعداد میں سنجولی میں احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے آج پولیس کی رکاوٹیں توڑ دیں۔ مظاہرین اب مسجد کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موقع پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جو مظاہرین کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بیریکیڈ توڑنے کے بعد پولس نے چلتی بھیڑ پر لاٹھی چارج بھی کیا۔
اس معاملے پر کانگریس کے سینئر لیڈر اور ہماچل پردیش کے وزیر وکرمادتیہ سنگھ کا بیان بھی آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج کرنے کا حق ہر ایک کو ہے لیکن کوئی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے جس سے ریاست کا امن خراب ہو۔ ریاست کا امن و امان خراب نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ سارا معاملہ عدالت میں ہے۔ اگر وہ جگہ غیر قانونی پائی گئی تو کارروائی کی جائے گی اور قانون کے مطابق اسے گرایا جائے گا۔ ہماچل کے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو کے میڈیا مشیر نریش چوہان نے بھی اس معاملے پر بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ غیر قانونی تعمیرات کا مسئلہ ہے، اسے مسجد کے تنازع سے نہ جوڑا جائے۔ نریش چوہان نے کہا ہے کہ اس معاملے پر لوگوں نے پرامن مظاہرہ کیا ہے۔ نریش چوہان نے کہا ‘انتظامیہ اور پولیس آج کی کال کے لیے پوری طرح تیار ہے، تاکہ امن برقرار رہے۔ ہم پہلے ہی دفعہ 163 نافذ کر چکے ہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ہندو تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ مسجد کی غیر قانونی تعمیر کو گرایا جائے۔ حال ہی میں ہماچل پردیش کے دیہی ترقی اور پنچایتی راج کے وزیر انیرودھ سنگھ نے اسمبلی میں مسجد کی تعمیر کے معاملے پر سخت تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ‘سنجولی بازار میں خواتین کا پیدل چلنا مشکل ہو گیا ہے۔ چوریاں ہو رہی ہیں، لو جہاد جیسے واقعات ہو رہے ہیں، جو ریاست اور ملک کے لیے خطرناک ہیں۔