( ریاستی ایک روزہ علماء کانفرنس):نفرت کی منظم سازش کے خلاف دل و دماغ جیتنے کی مہم شروع کریں – سید سعادت اللہ حسینی، امیر، جماعت اسلامی ہند

ملک کا منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے کچھ فسطائی طاقتیں اپنے ناپاک عزائم اور مضموم ایجنڈے کو ملک و ملت پر تھوپنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ان حالات میں علماء کرام نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ان فتنوں اور چیلنچیز کے مقابلے کی عملی تدابیر پر غور وفکر کرنے اور امت کی صحیح رہنمائی کرنے کے جذبہ کے ساتھ، مجلس العلماء کرناٹکا کے زیر اہتمام ایک روزہ علماء کانفرنس مورخہ 19 دسمبر 2022 کا انعقاد عمل میں آیا ۔
جناب انجنیر سعادت الله حسینی صاحب امیر جماعت اسلامی ہند نے کلیدی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ۔
"ملت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ امت کے سامنے اپنی منزل واضح ہو۔ اسے اپنے مقصد کا شعور ہو۔ اور اسکی اپنی حیثیت کا علم ہو۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت میں اس کا شعور بیدار کریں ۔۔ دوسری بات امت کے اندر اعتماد پیدا ہو ۔جس دین پر جس خدا پر جس کتاب پر اور جس رسول کی تعلیمات پر ہمارا ایمان ہے وہ یقین کی حد تک ہو۔خدا اعتمادی کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی بھی ضروری ہے۔ جب ہم بااعتماد ہونگے اور ایمان پر مضبوط قائم رہینگے تو پھر ہم دوسروں کے رہبری و رہنمائی کریں گے۔ معاشرے میں مسائل، مشکلات و مصائب کا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ غور کیجئے قرآن مشکلات اور مصائب ہی کے دور میں نازل ہوا۔ جب جب معاشرے اور سماج میں کوئی مسئلہ پیدا ہوا قران کے ذریعے حل بتایا گیا۔ آج بھی مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ ہم اسی کتاب کے ذریعے سے کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم اس کو حکمت و دانائی سے دنیا کے سامنے پیش کریں ۔ امت اگر کامیاب ہونا چاہتی ہے تو اسے یہ یقین پیدا کرنا ہوگا کہ باطل ظاہری طور پر طاقتور نظر آتا ہے مگر حقیقت میں اسکی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں۔ اس کے پاس اتنی قوت نہیں ہوتی کہ وہ حق پر غالب آجائے۔ امت کو اسکے پرپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔” اپ نے اپنی بات جاری رکھتےہوئے کہا کہ ،
” ملت مشکلات میں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے مبتلا ہوتی ہے۔ انکےاپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے۔ امت کی کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی مشکلات و مصائب کا رونا بند کریں اور مایوسی سے بچیں۔ قران مجید ہمیں بتاتا ہے کہ مصائب و مشکلات سے کیسے نبردآزما ہوں، وہ ہمیں امید اور ہمت عطا کرتا ہے اور اصلاح احوال کا حل بتاتا ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں اور اصلاح کی فکر کریں۔ امت کی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ امت کے سامنے دین کا صحیح اور جامع تصور رہے۔ اصلاح امت کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں دینی احکامات پر عمل ہو۔ بعض معاملات میں ہم بہت حساس ہوتے اور بعض دوسرے معاملات میں ہماری حساسیت اس معیار کی نہیں ہوتی جتنی کے ہونا چاہئے ۔ بعض معاملات میں شدد اور بعض میں سہل پسندی اور نظر اندازی کا رویہ ہماری ترقی و اصلاح میں روکاوٹ پیدا کرتی ہے اور امت کو اپنی منزل مقصود سے دور کردیتی ہے۔۔”
مولانا خالد سیف الله رحمانی۔( سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)۔۔ نے اپنی صحت اور عدیم الفرصتی کی بنا پر اپنا ویڈیو پیغام علماء کے سامنے پیش کیا۔ اپ نے فرمایا کہ "علماء ملت کا دل ہیں ۔ یہ جتنا اہم ہے اسکی ذمہ داری بھی اتنی ہی اہم ہے۔ملت و سماج کے مسائل کا حل اور انکی رہنمائی آپ علماء کی ذمہ داری ہے کیونکہ کتاب و سنت کے آپ امین ہیں۔ اسلام مخالف باتوں کا جواب ، بحث و مباحثہ ،مجادلہ یہ آپ علماء کا کام ہے یہ عوام کا کام نہیں ۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ حکمت موعضة حسنه کے ساتھ اسلام کے تعلیمات کو سمجھائیں اس کے ساتھ ساتھ انکے غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کا کیا عقیدہ اور کیاخیال یے اس موضوع پر یا اس مسئلہ پر جاننا ضروری ہے مولانا نے علماء کو یاد دلایا کہ اپ کا کتاب و سنت کاعلم حاصل کرنا صرف معاش کے لئے نہ ہو بلکہ اصل مقصد الله کے دین کی دعوت ہو۔۔”
مولانا احمد سراج عمری قاسمی ( صدر جمعیت علماء ۔۔ہبلی). نے۔ اسلام کی نشأة ثانيہ میں علماء و عالمات کا اقدامی کردار” پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ،” نشاةثانیہ کا تصور مغربی نقطہ نظر میں مختلف ہے اور اسلامی نقط نظر الگ ہے۔ مغرب کا نظریہ انسان پسند ہے کہ جو ہم کو اچھا لگے وہ ہم اختیار کریں گے . لیکن ہمارا نقطہ نظر یہ ہے الله تعالیٰ جو چاہتے ہیں وہ ہم اختیار کریں گے۔ اپ نے علماء سے کہا کہ دنیا سے جب اپ بات کریں تو پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ بات پیش کریں ۔اپ کا رویہ اقدامی رویہ ہو دفاعی نہ ہو۔ اس لئے کہ ہم جو پیش کر رہے ہیں وہ سراسر حق ہے۔اپ نے توجہ دلائی کہ ہمارے مدارس میں نصاب کو پڑھانے کے طریقوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ہم بچوں کو اسلامی نقطہ نظر سے پڑھائیں اور اسلام کی حقانیت کو واضح کرتے ہوئے سمجھائیں تاکہ طلبہ دنیا کے سامنے عقلی ، سینٹیفک ، مدلل انداز میں دعوت پیش کرنے کے قابل بنیں ۔”
جناب یس امین الحسن ۔( نائب امیر جماعت اسلامی ہند).. نے ” ملک کی بدلتی صورتحال اور ہماری حکمت عملی” کے عنوان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ” کبھی زنانہ ایک حال میں نہیں رہتا ۔زمانہ کے اندر تغیر و تبدیلی ایک فطری امر ہے۔ پچھلے چند دہائیوں کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ 80 کی دہائی میں اسلام کا بول بالا رہا۔ تحریکات اسلامی نشوونما پارہی تھی ، اسلام پر کتابیں منظرعام پر آرہی تھی ۔۔پھر 90 کے دہائی میں اسلاموفوبیا کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اسلام اور اسلامی شعائر کا تمسخر اڑایا جانے لگا۔ اسلام کی شکل کو بگاڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور پرپیگنڈوں کے ذریعے یہ باور کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسلام سماجی امن کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس پر کتابیں لکھیں گئیں ۔ پھر 2000 میں دہشتگردی کا شوشہ چھوڑا گیا اور مسلمانوں کو دہشتگرد ثابت کرنے کےلئے ان پر مظالم ڈھانے لگے۔ پھر 2010 سے شعائر اسلام اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے اور بدکلامی کرنے لگے تاکہ مسلمان کو دفاعی پوزیشن میں لایا جائے۔
یہ سب مسلمانوں ہی سے کیوں ہوتا ہے ۔ اس پر اگر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا میں مسلمان واحد قوم ہے جو اپنے عقائد کا اعلان بر ملا ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی دعوت بھی دنیا کو دیتی ہے کہ یہ سب سے سچا عقیدہ ہے۔ دنیا کی دوسری قومیں تعلمی، سماجی اور خدمت کے حوالے سے تو بات کرتی ہے مگر اپنے عقائد کا اعلان نہیں کرتی۔۔ یہی اصل چیز ہے جس کی وجہ سے مسلمان دنیا میں معتوب ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ان حالات میں ہماری حکمت عملی کیا ہو اس پر اظہار خیال فرماتے ہو کہا کہ۔۔ پہلی چیز استقامت ہے۔اعمال کے ساتھ ساتھ فکری استقامت بھی بہت ضروری ہے۔ اگرہماری فکر پختہ نہ ہو تو فکری ارتداد کا خطرہ ہوتا ہے اور اگر ہم دین کے تعلق سے شک و شبہ میں مبتلا ہوں تو ہمارے اعمال ایک رسم بن کر رہ جائینگے ۔ علماء کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کی اصلاح و دعوت سینٹفک اور عقلی دلائل سے دیں اور ان میں اعتماد و یقین پیدا کرنے کے کوشش کریں ۔ اسکے لئے ہمارے خطبہ جمعہ بہترین ذریعہ ہوگا اگر ہم منصوبہ بند طریقے سے ان موضوعات کو بیان کریں گے۔ آپ نے اگے فرمایا کہ اسلام دشمنوں کے اعتراضات کا جواب ہوشمندی، دانشمندی اور دلائل کے ذریعے دیا جائے ۔ مشتعل عوامی ردعمل ہمیں نقصان پہنچائی گی۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا جواب حکمت سے دیں۔ ہمارا دین مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ ہمیں تحریر کا جواب تحریر سے، تقریر کا جواب تقریر سے قانون کا جواب قانون ہی سے دینا یوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ علماء سماج کے سلگتے مسائل پر بھی کھڑے ہوں ہم خیر امت ہیں انسانوں کی خیر خواہی کے لئے اٹھائی گئی ہے۔ ظلم کسی پر بھی ہو ہم مظلوموں کا ساتھ دینے والے بنیں ۔ اس کے لئے ہمارے صفوں میں اتحاد ناگزیر ہے ایک فٹ بال ٹیم کی طرح ہماری مختلف جماعتیں کام کریں۔ ہمارا ایک گول ایک حدف ہو اور سب مل کر اپنے حدف کو حاصل کرنے کے لئے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں ۔ کام کا دائرہ ہر ایک الگ الگ ہو سکتا ہے مگر آپس میں فریق کے بجائے رفیق بن کر کام کریں گے تو پھر ہم ایک صحت مند سماج کی تعمیر کرسکتے ہیں اور ملت اسلامیہ کا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتے ہیں ۔۔۔
مولانا رضی الاسلام ندوی۔ ( سیکریٹری شعبہ اسلامی معاشرہ۔۔ مرکز) نے” اسلامی معاشرے کی تشکیل ۔عصری تقاضے اور عملی تدبیر” ۔ کے عنوان پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ۔
” انسان فطرتاً مدنی الطبع ہے وہ اجتماعیت پسند ہے۔انسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ اول روز سے ہی انسان کا جوڑا پیدا کیا گیا۔ معاشرے کی تشکیل اجتماعیت سے وابستہ ہے۔ دوسری چیز معاشرے کو حقوق اور فرائض سے جوڑا گیا ہے ۔ ہر انسان کا دوسرے انسان پر کچھ حق اور فرض ہے ۔ان حقوق کی پاسداری سے ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ آپسی باہمی تعلقات ہمدردی، خیرخواہی، ایثار، رحم وکرم ،عدل و انصاف، عف و درگذر، یہ صفات ایک معاشرہ کو خوشگوار بناتے ہیں ۔ مولانا نے قرآن وحدیث کی روشنی بتایا کہ ایسا ہی سماج اسلامی معاشرہ کہلاتا ہے اور اسی کے لئے ہمیں کوشش کرنا ہے۔”

Latest Indian news

Popular Stories