غزہ کا غم اور اسرائیلی بربریت میں شدید اضافہ

محمد اعظم شاہد

ہر دور میں جنگ مظلوم اور ظالم کے درمیان تباہی عام کرتی آئی ہے۔ جنگ کے قیامت خیز نتائج سے پور دُنیا واقف ہے مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ سنگینی بھلا دیتی ہے۔غزہ پٹی میں بسے فلسطینی شہریوں پر اسرائیل کے حملے چالیس دن سے لگاتارجاری ہیں۔غزہ میں وحشیانہ بمباری کے باعث عمارتیں کھنڈر بنی ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ مدارس اور اسپتال کو چن چن کر تباہ کیا جارہا ہے۔ عالمی برادری اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی حال ہی میں ایک تازہ قرارداد منظور کی ہے جس میں اسرائیل کو متنبہ کیا گیا ہے کہ امن انسانیت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے غزہ پر اپنے حملوں کو فوری روک دے اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں  اسرائیلی آباد کاری روکی جائے۔ایک سو پینتالیس 145ممالک بشمول ہندوستان نے اس قرارداد کی حمایت کی ہے۔ ابھی گزشتہ چند ہفتے قبل جنگ بندی کی قرارداد سے ہندوستان نے خود کو الگ رکھا تھا۔ مسلم ممالک کی ایک خصوصی نشست کا سعودی عرب نے چند دن قبل اہتمام کیا تھا۔ جس میں 57 ممالک کے سربراہ بشمول ایران و ترکی شریک رہے۔ سخت موقف اختیار کرتے ہوئے فلسطینیوں کی اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی کی سخت مذمت کے ساتھ اسرائیل کی جانب سے ہورہے جرائم پر فوری روک تھام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چند مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تمام سفارتی اور تجارتی تعلقات ترک کرلینے کی تجویز پیش کی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس سخت اور موثر موقف کو روبہ عمل لانے پر یہ کہہ کر روک لگا دی کہ جاری جنگ کے دوران امن کی بحالی اور جنگ بندی میں یہ موقف رکاوٹ کا باعث بن جائے گا۔ نہیں معلوم کہ اس طرح کی حکمت عملی اپنانے میں کیا کیا مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ایران نے اسرائیلی جارحانہ حملوں کو دہشت گردی کارروائی قرار دینے پر زور دیا تو ترکی نے برمحل کہا کہ اسرائیل جاری جنگ کے دوران چند گھنٹوں کی رعایت نہ دے بلکہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کا دائمی حل کے لیے عالمی امن کانفرنس کا فوری طور پر انعقاد کیا جائے۔ان تمام حالیہ کوششوں کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو بضد ہے کہ وہ غزہ پر حماس کے سولہ سالہ دور اقتدار کو تباہ و برباد کردے گا۔ اسرائیل میں خود اسرئیلی امن پسند عوام اسرائیل سے نقل مکانی یہ کہہ کر کررہے ہیں کہ ان کے قیام کے لیے یہ ملک(اسرائیل) اب مناسب نہیں رہا ہے۔ جہاں جنگ کے نام پر بے قصور معصوم فلسطینیوں کو نشانہ بناکر بربریت کی تاریخ لکھی جارہی ہے۔
دنیا دیکھ رہی ہے،سابقہ اسرائیلی حماس جنگوں میں جو تباہی مچی تھی اس سے کئی گناہ زیادہ سنگینی موجود ہ جنگ اختیار کرگئی ہے۔ امریکہ کی اسرائیل کے لیے حمایت بھی اب عالمی سطح پر تنقیدکا باعث بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے فلسطین پر غیر قانونی اور ناجائز قبضہ کو درست قرار دینے والاامریکہ دراصل دہشت پسند ہے۔ دُنیا کے کئی ممالک میں فلسطینی آزادی اور جنگ بندی کے لیے امن پسند مظاہرے ہورہے ہیں۔ مگر ہندوستان میں فلسطین کی حمایت میں مذمتی احتجاج پر پابندی لگی ہے جب کہ یہ دنیا کی بڑی جمہوریت کہلاتا ہے۔
چالیس دن سے جاری خونریزی جنگ میں گیارہ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔زخمیوں کی تعداد پچیس ہزار سے زائد تجاوز کرگئی ہے۔ شہید ہونے والوں میں بچوں کی تعداد چار ہزار پانچ سو سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔قیاس کیا جارہا ہے کہ بمباری کے باعث مسماری عمارتوں کے ملبے میں تین ہزار سے زائد غزہ کے مکیں دبے ہوئے ہیں جن میں فلسطینی بچوں کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔ غزہ شہر کے مرکز ی علاقے میں واقع دو بڑے اسپتال الشفا اور القدس میں ایندھن اور بجلی کی قلت کے باعث تقریباً علاج کی سہولتیں بالخصوص انتہائی نگہداشت کا شعبہ بری طرح متاثر بتایا جارہا ہے۔قبل از وقت بچوں کی نگہداشت تشویشناک مسئلہ بناہوا ہے۔الشفا اسپتال میں جہاں ایک ہزار پانچ سو مریض اور زخمی زیر علاج ہیں زخمیوں کی آمد کا سلسلہ لگاتار جاری ہے۔دواو?ں کی قلت اور علاج کی سہولتیں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ یہاں کے ڈاکٹر پریشان ہیں کہ آخر کن زخمیوں کا علاج کیا جائے اور کن کو مرنے دیا جائے۔WHOے اس صورتحال کو سنگین بتاتے فکر جتائی ہے کہ اگر جنگ بندی ہو نہیں پائی تو غزہ کے اسپتال مردہ خانے میں تبدیل ہوجائیں گے۔جنریٹرس کے لیے مطلوبہ ڈیزل کی برآمدات پر اسرائیل نے پابندی کے ساتھ بجلی اور پانی کی فراہمی روک کر فلسطینیوں کی نسل کشی genocideکا شرمناک حربہ استعمال کررہا ہے۔ حماقت، تکبر اور اپنی ضد کے باعث اسرائیل دنیا کا سب سے بڑا اور صف اول کا دہشت گرد ملک بن گیا ہے۔ الشفاء اسپتال میں جنگ سے متاثرہ تقریباً بیس ہزار غزہ میں مقیم فلسطینی پناہ گزین ہیں۔ زخمی مریضوں کے ساتھ ایک ہزار پانچ سو کے آس پاس طبی عملہ Medical Staffالشفا اسپتال میں کام کررہا ہے۔حماس فوجیوں کی پناہ گاہ بغیر کسی ثبوت کے مانتے ہوئے اس اسپتال میں بمباری کی گئی ہے۔ اسپتالوں کو جنگ کے دوران نشانہ بنانا اس سے بڑھ کر دہشت گردی کیا ہوسکتی ہے۔ہردس منٹ میں ایک فلسطینی بچہ ہلاک ہورہا ہے۔شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور و بے سروساماں فلسطینی آہ و بکا کرتے نظر آرہے ہیں۔عرب ممالک کی پراسرار خاموشی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی بڑی بڑی باتیں کرنے والے طاقت ور ممالک کی بے حسی کا نوحہ کررہے ہیں۔ اسرائیل جو کہ غیر مشروط طور پر اپنے 240 یرغمالی افراد کی رہائی کا مطالبہ کررہا ہے۔ برسوں سے اسرائیلی قید خانوں میں مقید فلسطینی جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ان کی رہائی کا حماس مطالبہ کررہا ہے۔ حماس نے فلسطینی باشندوں پر اسرائیلی مظالم سے تنگ آکر جنگ چھیڑ دی تھی مگر اس کی پاداش میں اسرائیلی جنگی حملوں سے غزہ ایک کھنڈر اور قبرستان میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ جنگ بندی بہ عجلت ممکنہ ہوجائے یہ نہ صرف جنگ زدہ غزہ کے فلسطینیوں کی دُعا ہے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں بسے ہر امن پسند اور آزادی کے قدردان کی آرزو بنی ہوئی ہے۔

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!