کشمیری نوجوان عاشق احمد اور اس کے کنبہ کی درد بھری فریاد

محمد ندیم الدین پرتاپگھڑھی.

اس میں کوئی شک نہیں کی جب بھی درد دکھ مظلومیت کی بات ہوگی تو جموں کشمیر ہماری نگاہوں کے سامنے ضرور آئے گا جس کسی کے دل میں بھی انسانیت ہوگی محبت کو سمجھتا ہوگا تو ضرور کشمیریوں کے ساتھ ہو رہے ظلم و ستم کی گواہی دے گا جب سےحکومت نے دفعہ 370 کو ہٹایا ہے کشمیریوں کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے وہاں اب بھی زندگی معمول پر نہیں ہے اور نہ ہی اسے صوبے کی حیثیت دی گئی بلکہ سیاست کی نوک پر چھوڑ دیا گیا ہے یہاں پر ہم صرف کشمیر کے ایک نوجوان کا واقعہ کا ذکر کر رہے ہیں دفعہ تین سو ستر کو ختم ہوئے تقریبا ڈیڑھ سال کا وقت گزر چکا ہے اس وقت تقریبا چھ سو پچاس لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی تھی انہی میں سے ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا تھا جس کا نام عا شق تھا عاشق کی عمر تقریبا 30 سال ہے عاشق عالم دین ہے گھر کے قریب ایک مسجد میں نماز پڑھاتے تھے پولس نے عاشق کو گرفتار کرنے کے بعد آگرہ جیل بھیج دیا گیا یا جب ان کے گھر والوں کو پتہ چلا کہ ان کے بیٹے کو آگرہ جیل بھیج دیا گیا ہے تو ان کے والد تقریبا ایک مہینے کے بعد آگرہ پہنچیں وہاں کے حکام سے بات کی ہم کو اپنے بیٹے سے ملاقات کرنی ہے ملاقات کی اجازت نہیں دی دو تین رہے ہیں وہاں کے اہلکاروں سے گذارش کرتے رہے لیکن ان کی کسی نے نہ سنی اپنے بیٹے سے ملاقات کیے بغیر مایوس انکو کشمیر لوٹنا پڑا اس درمیان کافی پیسے خرچ ہوئے مالی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے قرض بھی لینا پڑا تھا عاشق احمد کی ماں کا کہنا ہے ہے ان کا بیٹا پا نچ ٹائم مسجد میں نماز پڑھاتا تھا وہ کسی غلط کام میں کبھی شریک نہیں ہوا ہمارا بیٹا بہت نیک ہے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ جس دن سے میرا بیٹا گرفتار ہوا ہے میں نےاپنے بیٹے کو نہیں دیکھا ہے کوئی ماں آپ کو بتائے گی کہ سالوں تک اپنے بیٹے کو نہ دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہے میں ایک ماں ہوں اور ماں کے پیار کی قیمت کو جانتی ہوں موبائل میں اپنے بیٹے کی فوٹو دکھاتے ہوئے رونے لگتی ہیں اور کہتی ہیں میری کافی عمر ہو گئی ہے۔ ملاقات کرنے کے لیے آگرہ جانا میرے لئے بہت مشکل ہو گیا ہے وہ کہتی ہیں کہ ڈیڑھ سال بعد میں نے اپنے بیٹے سے فون پر بات کی ۔میں برداشت نہ کر سکیں۔ میں رونے لگی۔ ایک منٹ سے زیادہ اپنے بیٹے سے بات نہ کر سکیں۔ میں روز کھڑی ہو کر اپنے بیٹے کا انتظار کرتی ہوں مجھے امید ہے میرا بیٹا آئے گا حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ میرے بیٹے کو رہا کردے و ہیں عاشق کی اہلیہ کہتی ہیں میری تکلیف کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ میں بے بس ہوں۔۔۔ میرے لئے ہر دن ایک بو جھ ہے میری دو سال کی ایک بچی ہے اپنے والد کو یاد کرتی رہتی ہے اور بابا بابا کہتے ہے ان کی اہلیہ اپنے شوہر پر لگے ہر الزام کی تردید کرتی ہے وہ کہتی ہیں میں اپنے شوہر کو اچھی طرح جانتی ہو وہ کبھی کسی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہوئے وہ ایک سادی زندگی گزارنے والے شخص ہیں اگر حکومت کو کچھ غلط بھی لگتا ہے میری بچی اور میرے دکھ کو دیکھ کر انہیں معاف کر دے ۔ عا شق ان افراد میں سے ایک ہیں جو جیل میں قید ہیں جو اپنے شہر جموں کشمیر اور اور اپنے دوست اپنے گھر والوں سے بہت دور ہے۔۔

Latest Indian news

Popular Stories