ہم 26 جنوری کے بعد آپریشن کریں گے’، سابق ڈپٹی سی ایم لکشمن ساوادی


بیدر۔20/نومبر۔ اس سال مئی کے مہینے میں کانگریس نے کرناٹک میں زبردست جیت حاصل کی تھی۔ ریاست میں حکومت کے چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد کانگریس کرناٹک میں بڑا سیاسی قدم اٹھا سکتی ہے

درحقیقت کانگریس ایم ایل اے اور ریاست کے سابق نائب وزیر اعلیٰ لکشمن ساودی نے پیر کو دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے بہت سے ‘ناراض’ ایم ایل اے ان کے رابطے میں ہیں۔ساوادی نے کہا ”ہم 26 جنوری کے بعد مزید کارروائی شروع کریں گے۔ آپ (میڈیا) بعد میں دیکھیں گے کہ کتنے لوگ کانگریس میں شامل ہوں گے۔” کرناٹک اسمبلی انتخابات سے پہلے لکشمن ساودی بھی بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہو گئے تھے۔آپریشن ہست پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساودی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بی جے پی کے بہت سے لیڈر ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔ساودی نے کہا کہ ایک بار جب بی جے پی لیڈروں کی کانگریس میں شمولیت کا عمل مکمل ہو جائے گا تو انہیں صحیح عہدوں پر تعینات کرنے پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ”بی جے پی سے آنے والوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔

اس لیے جو بھی اپنی مرضی سے کانگریس میں شامل ہونا چاہے گا، اس کا احترام کے ساتھ استقبال کیا جائے گا۔ لوک سبھا انتخابات میں 20 سیٹیں جیتنے کے لیے بلیو پرنٹ تیار ہے۔”جب میڈیا نے سابق نائب وزیر اعلیٰ لکشمن ساودی سے پوچھا کہ کیا انہیں لنگایت برادری کے ایم ایل اے کو پارٹی میں شامل کرنے کا کام سونپا گیا ہے؟ اس پر انہوں نے واضح کیا کہ صرف لنگایت ہی نہیں کانگریس سبھی کا استقبال کرے گی۔بی جے پی کے ہندوتوا کے تصور اور ہندوتوا مخالف نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس میں ایسا کوئی امتیاز نہیں ہے۔

ہم سب کو ساتھ لائیں گے۔ ساتھ ہی سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا کے بیٹے کی کرناٹک بی جے پی کے صدر کے طور پر تقرری پر ساودی نے کہا کہ شمالی کرناٹک میں لنگایت بڑی تعداد میں ہیں، جب کہ بی وائی وجیندر جنوبی کرناٹک کے میسور، بنگلورو اور شیموگہ اضلاع تک محدود ہیں۔ساودی نے کہا کہ بی جے پی کے بہت سے لیڈر بی وائی وجئیندر کو کرناٹک بی جے پی کا صدر بنانے کے فیصلے کے خلاف ہیں۔

بی جے پی کے سینئر لیڈر اس الجھن میں ہیں کہ وہ وجیندر جیسے جونیئر لیڈر کی قیادت میں کیسے کام کریں گے۔انہوں نے کہا ”میں بی جے پی پارٹی پر بحث نہیں کرنا چاہتا۔ وجئیندر کو ریاستی صدر بنانے سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ چاہے کوئی بھی ریاستی صدر بن جائے، بی جے پی اپنا کھویا ہوا میدان دوبارہ حاصل نہیں کر سکتی۔ بی جے پی کے بہت سے رہنما اس تقرری کو لے کر فکر مند ہیں۔ وجیندر کے صدر بننے سے کئی لیڈر ناراض ہیں، یہ غصہ کسی بھی وقت بھڑک سکتا ہے

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!