اُس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے : قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

ڈاکٹر قاضی سراج اظہر، بی ایس سی، بی ایڈ، ایم ڈی، ایف سی اے پی، ایف اے ایس سی پی۔
اسوسیٹ کلینکل پروفیسر ، شیگن اسٹیٹ یونیورسٹی۔ امریکہ ، چیرمن ڈیپارٹمنٹ آف پیتھالوجی ، ہرلی میڈیکل سنٹر، فِلِنٹ، مشیگن، امریکہ

ہندوستانی مسلمانوں کی ساری توجہ آج کل انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی طرف مائل ہے۔ تعلیمیافتہ ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ غیر ملکی زبان جیسے انگریزی اور فرانسیسی زبانیں سیکھی جائیں۔ اس بات کو ہم ذہن نشیں کرلیں، ہندوستانی مسلمانوں کی زبان انگریزی یا فرانسیسی نہیں ہے۔ ہماری نوخیز نسلوں کو انگریزی سے کیا واسطہ! جب ان پر ایک غیر ملکی زبان انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنادیا جاتا ہے تو آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اُن پر کیا گذرتی ہوگی۔ کئ سال کی محنت کے بعد طلبہ ہائ اسکول ختم ہونے تک صرف کچھ کچھ انگریزی بولنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اہم مضامین کے بنیادی تصور سے بے بہرہ رہتے ہیں لیکن والدین کے دماغوں میں انگریزی کا بھوت سوار ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں یا اُنہیں کسی نے بتایا نہیں کہ مسلمان تعلیمی میدان میں کتنے آگے تھے۔ اللہ کرے ہمارا قرونِ وسطیٰ کا سُنہری دور ہمیں واپس مل جائے اور ہم سائنسی دریافت اور سائنسی تحقیق کی دُنیا میں خوب نام کمائیں اور اس کی بدولت ہمارے دینِ اسلام کا بول بالا ہو جائے۔ ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم نے تحقیق اور ایجاد کا کام دوسروں پر چھوڑ دیا ہے۔ ہم تو اُن کے مُقلِد اور مترجم ہو کر رہ گئے ہیں۔ سائنسی نمائش ہمارا شیوہ ہے۔ جب کہ یورپ کا بچہ بچہ سائنسی تحقیق میں لگا ہوا ہے۔ ایک نامعلوم شاعر کا شعر اس بات پہ بالکل صادق آتا ہے۔

ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے

علامہ اقبال دل برداشتہ ہو کر کہتے ہیں

گنوا دی ہم نےجواسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

افسوس ہے آج ہمارے ۵۷ ممالک اپنے یورپی آقاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اپنا دین اپنی تہذیب اپنا تمدن فرنگیت اور فرنگی زبان کیلئے قربان کرچُکے ہیں۔ کیا ہم اپنی زبان میں تحقیق نہیں کرسکتے؟ فرنگیت کی زبان اور اُنکی تہذیب کے گُن گانے کی ہمیں کیا ضرورت ہے۔ تحقیقی و تخلیقی صلاحیتیں کسی زبان کا ورثہ نہیں ہوتیں۔ مثلاً جب ڈاکٹر Katlin Kariko نے کوویڈ بیماری کے لئے mRNA کا ٹیکہ بنایا تو اُنہوں نے ہنگیرین زبان میں ہی سوچا ہوگا، کیونکہ اُن کی پی ایچ ڈی تک کی ساری تعلیم ہنگری زبان میں ہی ہوئ اور یہ زبان صرف 10.1 ملین آبادی والے ملک کی زبان ہے۔ لیکن چونکہ اِس ملک میں تعلیم ہنگیرین زبان میں دی جاتی ہے، اس لئے ان میں تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتیں بدرجہ اُتم موجود ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حال ہی میں ہنگری کے دو افراد کو نوبل انعام دیا گیا۔ ایک تو Katalin Kariko اور دوسرا Ferenc Krausz کو جس نے Attosecond Light Pulses سے جوہری سالمات کو دیکھنے کی ٹیکنالوجی دریافت کی۔ اس جدید سائنس سے ایک نئے شعبۂ سائنس کی ابتدا ہوگی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مادری زبان میں تحقیقی و تخلیقی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی ترقی یافتہ زبان اردو کا خود ہی گلا گھونٹ دیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اپنی ترقی کا دروازہ خود ہی بند کردیا۔ کاش ہم نے اس کو تحقیقی اور تجرباتی سائنس کا حصہ بنادیا ہوتا تو آج کئ دریافتیں اور ایجادات اردو کا حصہ ہوتیں۔ اردو کے سائنسی اصطلاحات یورپ والے استعمال کرتے۔ ہماری، اپنی زبان سے احساسِ کمتری نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھّا۔ ہمارے جامعات کا بھی یہی حال ہے۔ ویسے ہی برائے نام اردو جامعات ہیں۔ درس و تدریس وہی اِنڈلِش میں ہوتی ہے۔ ہاں آپ نے صحیح پڑھا انڈیا کی انگلش (اِنڈلِش)۔ نہ تو ہم انگریزی ہی ڈھنگ کی بول سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مادری زبان اردو پر عبور ہے۔ ہاں اردو کو رومن میں لکھنا ضرور سیکھ گئے ہیں۔ اردو الفاظ کا وہ حشر ہورہا ہے کہ خدا ہی خیر کرے۔ ناموں کا کچومر بن رہا ہے۔ خواجہ کھا جا ہوگئے۔ دواخانہ دوا کھانا ہوگیا ہے۔ ان الفاظ کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس پر پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے۔ دل کہہ رہا ہے قلم کی بے چینی کو برقرار رکھتے ہوئے دل کی ساری بھڑاس الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر صفحۂ قرطاس پر بکھیر دوں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے منسلک تقریباً تمام مدارس انگلش میڈیم کے ہوگئے ہیں۔ جامعہ علیگڑھ میں داخلے کی شرط اردو کا ایک امتحان ہوا کرتا تھا جسمیں کامیاب ہونا ضروری تھا۔ فی الحال وہ شرط بھی نہیں رہی۔ اب تو نام مسلم بھی اس یونیورسٹی سے نکالنے کی سازش ہورہی ہے۔ کیا عجب ہے ایسا ہو بھی جائے۔ آج بھی ایسے ایسے اردوداں اشخاص موجود ہیں جن کی اردو پڑھ کر اور سُن کر مجھ جیسے ادنیٰ اردو کے طالبِ علم کو رشک آتا ہے۔ اب تو آنکھیں اور کان ترستے ہیں ایسی اردو سننے کیلئے۔ شاید یہ اردو کی آخری نسل ہے۔ اکبر الہ آبادی نے علی گڑھ یونیورسٹی کے تعلق سے ایک پیشین گوئ کی تھی۔

ابتدا کی جناب سیّد نے
جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونیورسٹی پہ ہوئ
قوم کا اب کام تمام ہوا

سر سید احمد خاں انگریزی کے تو حامی تھے لیکن اردو کے ہرگز مخالف نہیں تھے۔ ان کی کوششوں سے دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سے سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سرسیّد احمد خان نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اکبر الہ آبادی کی زبان سے ایک اور قطعہ ملاحظہ ہو جسمیں اُنہوں نے سرسید احمد خاں کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ہے۔

ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے
نہ بھولو فرق جو کہنے والے اور کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئ میں تو کہتا ہوں یہ اکبر
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

میں نے تنقید تو بہت کردی، لیکن اس کا آخر حل کیا ہے؟ یہاں میں خود اپنی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ میری تعلیم مدرسۂ فوقانیہ (ہائ اسکول) تک اردو میں ہوئ۔ میری سائنس سے دلچسپی مادری زبان اردو کی وجہ سے رہی۔ یہی نہیں بلکہ سائنس سے لگاؤ اتنا شدت سے رہا کہ آٹھویں اور نویں جماعت میں سائنس میں شاعری بھی کی۔ یہ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ اگر ہم مستقبل میں اپنیُ نسلوں کو سائنسی دُنیا میں ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو مادری زبان اردو میں تعلیم دلوائیں۔ اس سے اردو کی بقاء کا مسلہ بھی حل ہوجائیگا اور ہماری دینی و عصری تعلیم خصوصاً سائنسی تعلیم میں پسماندگی بھی دور ہوجائیگی اور ہماری آنے والی نسلوں میں اچھی خاصی انگریزی خواندگی بھی برقرا رہے گی۔ آپ کہیں گے وہ کیسے؟ فکر نہ کریں ایک مضمون انگریزی کا ضرور تعلیمی نصاب میں رکھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مادری زبان میں تعلیم کی وجہ سے طلبہ اچھی انگریزی لکھ بول سکیں گے۔ ویسے اردو کا گہرا تعلق عربی اور فارسی کے ساتھ ہے تو ان زبانوں کو سیکھنا بھی آسان ہوجائیگا۔ یہی سائنسی تحقیق کہتی ہے۔

اس مضمون نویسی کے درمیان میں مراکش (Morocco) سفر پر ہوں۔ فی الحال یہاں کی قومی زبان عربی کردی گئ ہے۔ فرانس نے اس ملک کو 44 سال تک اپنا نوآبادیاتی علاقہ بناۓ رکھا۔ یعنی 44 سال تک یہ ملک فرانس کی غلامی میں رہا۔ 1956 میں اس کو آزادی ملی۔ یہاں کے بادشاہ کو مکمل اختیارات دے دیے گئے۔ یورپ والے چاہیں فرنچ ہوں یا برٹش، یہ جس کسی ملک پر قبضہ کرتے ہیں وہاں نو آبادیاتی نظام قائم کردیتے ہیں۔ اپنی زبان کو مسلط کرتے ہیں تاکہ اُن کی تہذیب و تمدن، اور دین اُس ملک کا حصہ بن جائے۔ یہاں تک کہ اگر وہ اُس ملک سے نکل بھی جائیں تو اُن کا اثر و رسوخ قائم رہے۔ یہی کچھ مراکش میں ہوا۔ جس طرح برطانوی راج میں انگریزی اسکول قائم ہوئے اُسی طرح یہاں فرنچ اسکول قائم ہوئے۔ فرانس کے زیرِ اثر جو ممالک رہے اُن میں مراکش، ماریطانیہ، سینیگل، نائجیریا، الجیریا، مدغاسکر، کیمرون، فرینچ مصر، فرینچ سوڈان اور کانگو ان کی چند مثالیں ہیں۔

صرف شعر و شاعری اور افسانہ نگاری سے زبانیں ترقی نہیں کرتیں۔ جو زبانیں سائنسی تحقیق و تخلیق کو گلے لگاتی ہیں وہ امر ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں اُن کا لسانی ادب بھی عروج پاتا ہے۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب عربی زبان سائنس کی زبان ہوا کرتی تھی جب یورپ والے جہالت کے اندھیروں میں گھِرے ہوئے تھے۔ ایسے وقت اُن میں شعور جاگا۔اُنہوں نے اپنی لاطینی زبان کو سائنس کی زبان بنادیا۔ جب تک ہم مادری زبان کو اہمیت دیتے ہوئے سائنس میں تحقیقی ترقی نہ کرینگے ہم دنیا کی امامت کے قابل نہیں ہوں گے۔ آخر میں میں یہی کہوں گا۔ فرنگیت نے ہماری نسلیں در نسلیں غلامانہ ذہنیت سے پُر کردی ہیں۔ وہ ہم پر دن رات ظلم ڈھاتے ہیں ہمارا قتلِ عام ہوتا ہے اور ہم خاموش رہتے ہیں۔ ایک لفظ بھی اُنکی تہذیب اور اُن کی فرعونیت کے خلاف نہیں نکلتا، بلکہ ہم دن رات اُن کے رنگ میں رنگے جارہے ہیں۔ حالانکہ سورة المائدہ کی یہ آیت توجہ طلب ہے۔

‎يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَـهُوْدَ وَالنَّصَارٰٓى اَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُـمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّـهُـمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٝ مِنْـهُـمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ (51)

اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالٰی ہرگز راہِ راست نہیں دکھاتا ۔

علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

سُنا ہے مَیں نے، غلامی سے اُمتوّں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے!

اگر ہم کو اس غلامی سے نجات حاصل کرنا ہے تو فرنگی زبان اور فرنگیت کے نرغے سے نکلنا ہوگا۔ خودی کی پرورش کرنی ہوگی۔ اپنی زبان، اپنی تہذیب اور اپنے دین کی حفاظت کرنی ہوگی۔ خود کو خوداختیار اور خودمختار بنانا ہوگا۔ جب ہم عالمِ ایجاد میں صاحبِ ایجاد بن جائینگے تو سارا عالم ہمارے گِرد طواف کرے گا۔

جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دَور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اُس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!
ہے جس کے تصّور میں فقط بزمِ شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ

ہمیں ایک تحریک چلانی ہوگی۔ والدین کو بچوں کی مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کو واضح کرنا ہوگا اور ساتھ ہی جستجو اور کھوج سے سائنسی تحقیق کو فروغ دینا ہوگا۔ آپ کو یہ جان کر خاصہ تعجب ہوگا دنیا میں ہونے والی سائنسی تحقیق پرہونے والے کل مصارف میں اسلامی دنیا کا حصہ صرف ایک فی صد ہے۔ بس ہم صرف اتنا کرسکتے ہیں غیر اقوام کی تحقیق شدہ سائنس پر کتابیں لکھ سکتے ہیں، رسالے نکال سکتے ہیں، اور مقالے شائع کر سکتے ہیں لیکن خود سے تحقیق کرنا ہمارے لئے محال یا یوں کہئے ہمارے بس کی بات نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَسَخَّرَ لَکُم مَّا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعاً مِّنْہُ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لَّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ(سورۂ جاثیہ : ۱۳)
’’اور جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور فکر کرنے والے ہیں‘‘۔

آہ! کیا کہوں لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ہماری زبان، تہذیب اور دین کو فرنگی زبان اور تہذیب نے یرغمال کرلیا ہے۔ اسی طرح مراکش میں مسلمان فرانسیسی زبان کے گُرویدہ نظر آتے ہیں۔ اپنے بچوں کو فرانسیسی میڈیم کے مدارس میں تعلیم دلواتے ہیں۔ میں نے ڈنکے کی چوٹ پر اِن کو کہدیا ہے کہ اگر دُنیا و آخرت میں اپنا مقام پیدا کرنا ہے تو اپنی مادری زبان عربی میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی جائے۔ تعلیمیافتہ ہونے سے مراد کسی بیرونی ملک کی زبان کا جاننا نہیں ہے۔ تعلیمیافتہ ہونے سے مراد اپنی خودی کی پرورش اور اندازِ غلامانہ کی نفی ہے۔ ہم نے اپنی عقل کو یورپی تہذیب کے پاس گِروی رکھ دیا ہے۔

‎جاں بھی گِرَوِ غیر، بدن بھی گِرَوِ غیر
‎افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے
‎یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تُو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!