مسلمانوں کے لیے ریزرویشن؛ کانگریس نے کب وعدے کیے اور کتنی بار مخالفت کی؟

کرناٹک میں او بی سی زمرہ کے مسلمانوں کو 4 فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ تنازعہ میں ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اس معاملے پر ریاست کی سدارامیا حکومت اور کانگریس کو نشانہ بنایا ہے۔مدھیہ پردیش کے مورینا میں اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا، ‘کانگریس مسلمانوں کے او بی سی کے حقوق چھیننا چاہتی ہے، اس لیے کرناٹک کی کانگریس حکومت نے تمام مسلمانوں کو او بی سی بنا دیا ہے۔’عوام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظٹ نے مزید کہا – انہیں ایسا سبق سکھائیں کہ وہ ریزرویشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے ڈریں۔
کرناٹک کے چیف منسٹر سدارامیا نے وزیر اعظم مودی کے دعوے پر جوابی حملہ کیا ہے۔ سدارامیا کے مطابق، وزیر اعظم مسلم ریزرویشن کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں اور انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔تاہم یہ پہلا معاملہ نہیں ہے جب کانگریس پارٹی مسلمانوں کو ریزرویشن دینے اور اس پر اٹھنے والے تنازعات کو لے کر خبروں میں ہے۔ پچھلے 30 سالوں میں مسلم ریزرویشن کو لے کر پارٹی کم از کم چار بار بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔
کرناٹک میں ریزرویشن تنازعہ کیا ہے؟
قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات کے مطابق کرناٹک حکومت نے ریاست کے تمام مسلمانوں کو او بی سی زمرہ 2 بی میں شامل کیا ہے۔ اس وقت کرناٹک میں او بی سی زمرے کے لیے 32 فیصد ریزرویشن ہے۔ کل 883 ذاتوں اور ذیلی ذاتوں کو او بی سی ریزرویشن ملتا ہے۔حکومت نے تمام مسلمانوں کو اس زمرے کے ایک نکتے میں شامل کیا ہے جس کے لیے 4 فیصد ریزرویشن کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس ریزرویشن کا فائدہ مسلمانوں کو کرناٹک کی سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ملے گا۔تاہم کرناٹک میں مسلمانوں کو 4 فیصد ریزرویشن کی فراہمی پہلی بار 1995 میں دیوے گوڑا حکومت کے دوران کی گئی تھی، جسے 2023 کے انتخابات سے قبل بی ایس بومائی حکومت نے ختم کر دیا تھا۔
کانگریس مسلم ریزرویشن کو لے کر تنازعات میں کب آئی؟
1. آندھرا پردیش میں پہلا وعدہ – پہلی بار 1994 میں کانگریس پارٹی نے مسلمانوں کو الگ ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اُس وقت آندھرا پردیش میں وجے بھاسکر ریڈی کی حکومت نے مسلمانوں کو 5 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ریڈی نے اپنے حکم میں کہا تھا – اگر ہم دوبارہ حکومت میں آتے ہیں تو مسلمانوں کی 14 ذاتوں کو تمام او بی سی کوٹے سے 5 فیصد ریزرویشن دیا جائے گا۔ آندھرا میں ریڈی کے اس فیصلے کی شدید مخالفت ہوئی تھی۔ اس کے نتیجے میں کانگریس اسمبلی انتخابات ہار گئی۔1999 میں بھی کانگریس جیت نہیں سکی اور یہ معاملہ التوا میں پڑا۔ مسلمانوں کے لیے اس ریزرویشن کی تلگو دیشم پارٹی نے سب سے زیادہ مخالفت کی تھی۔2004 میں کانگریس نے الگ سے مسلمانوں کو 5 فیصد ریزرویشن دینے کی بات کی تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد اس پر عمل بھی کیا گیا تھا۔ تاہم 2010 میں اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ فی الحال یہ معاملہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے پاس ہے۔بی جے پی نے اس کی مخالفت کی اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر لال کرشن اڈوانی نے اسے ملک کو تقسیم کرنے کا فیصلہ قرار دیا۔ اڈوانی نے اس وقت کہا تھا کہ اگر ملک میں مسلمانوں کو ریزرویشن دیا گیا تو مستقبل میں ہندوستان دو ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
2..2009 میں بھی ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا – کانگریس پارٹی نے 2009 میں اپنے منشور میں رنگناتھ مشرا اور امیتابھ کنڈو کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی بات کی تھی۔ 2009 کے انتخابات میں بھی یہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا اور بی جے پی نے کانگریس کو نشانہ بنایا تھا۔رنگناتھ مشرا کمیشن نے ملک بھر کے مسلمانوں کو 10 فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی تھی۔ کمیشن نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمانوں کی شرکت بڑھانے کے لیے دلت زمرہ میں تبدیلیاں کی جانی چاہئیں۔کمیشن کی سفارش کے مطابق مسلمان یا عیسائی بننے والے دلتوں کو بھی اسی طرح ریزرویشن ملنا چاہیے۔
2008 میں امیتابھ کنڈو کی قیادت میں 4 رکنی کمیٹی نے ملک میں مسلمانوں کی ترقی کے لیے ڈائیورسٹی کمیشن پر زور دیا تھا۔کمیٹی نے کہا تھا کہ مسلمان تعلیم سے لے کر پارلیمانی شراکت تک ہر چیز میں پیچھے ہیں، جس کو تبدیل کرنے کے لیے ہر جگہ بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ بڑی تبدیلیاں اسی وقت ممکن ہیں جب مسلمان فیصلہ سازی میں آئیں۔
3. یوپی انتخابات سے پہلے ریزرویشن کا اعلان – 2012 میں یوپی سمیت 5 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات سے پہلے کانگریس نے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا اعلان کیا تھا۔ اعلان کے مطابق مرکزی تعلیمی اداروں میں او بی سی کے لیے مختص 27 فیصد ریزرویشن میں سے 4.5 فیصد ریزرویشن مسلم کمیونٹی کو دیا جائے گا۔حکومت نے مسلم کمیونٹی کی 20 ذاتوں کو اس میں شامل کیا۔ کانگریس کے اس اعلان پر پورے ملک میں کھلبلی مچ گئی۔ انتخابات کے اعلان کے باعث کمیشن بھی حرکت میں آگیا۔کمیشن نے مرکز کے اس اعلان پر پابندی لگانے کا فیصلہ دیا۔ اس کے بعد کانگریس نے اسے پورے الیکشن میں ایشو بنایا۔ 2012 میں کانگریس کو اتر پردیش میں کامیابی نہیں ملی تھی جس کے بعد یہ معاملہ التوا میں چلا گیا۔2014 کے انتخابات میں کانگریس نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اقلیتوں کو ریزرویشن دینے کے لیے عدالت جائے گی اور اس کے معاملے کو قریب سے اٹھائے گی۔ تاہم اس الیکشن میں پارٹی کو کامیابی نہیں ملی۔
4. مہاراشٹر میں بھی مسلمانوں کو دیا گیا ریزرویشن – 2014 میں مہاراشٹر کی پرتھوی راج چوان حکومت نے بھی مسلمانوں کو 5 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے مراٹھوں کو 16 فیصد ریزرویشن دیتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا۔اس وقت کانگریس کی شیو سینا اور بی جے پی نے مخالفت کی تھی۔ تاہم حکومت نے دلیل دی کہ تمام برادریوں کو آگے لانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ان کی آبادی کے مطابق ریزرویشن دیا جائے۔مہاراشٹر حکومت نے کہا کہ اگر 32 فیصد مراٹھوں کو 16 فیصد ریزرویشن دیا جا سکتا ہے تو 11 فیصد مسلمانوں کو 5 فیصد ریزرویشن کیوں نہیں؟ کانگریس حکومت کے اس اعلان کو زمینی طور پر لاگو نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ 2014 میں حکومت کی رخصتی تھی۔ 2015 میں بی جے پی حکومت نے ریزرویشن کے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا تھا۔

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!