بھارت ۔افغان طالبان تعلقات میں بڑی تبدیلی ۔۔

۱۹۷۰ کی دہائی میں افغان طالبان کے افغانستان میں قبضہ کرنے سے لیکر اب تک افغانسان کو لی کر بھارت کی فورین پالیسی میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔بھارت نے طالبان کو کبھی بھی مذاکرات کے لیے ایک پارٹی یا ایک مستقل وجود کے طور پر باقاعدگی سے کبھی قبول نہیں کیا۔
افغانستان کی مقامی حکومت اور طالبان کے درمیان کشیدگی میں ایک لمبے زمانہ تک بھارت کبھی بھی ڈائریکٹ کسی کی بھی حمایت یا مخالفت سے بچتا رہا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں بھارت نے افغانستان کی مقامی حکومت کو مالی تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کو ایک پارٹی کی حیثیت سے قبول نہ کرنے کی پالیسی کو برقرار رکھا تھا۔
حالیہ خبروں کے مطابق اب بھارت نے اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کو شروع کیا ہے۔اس کی دو بڑی سیاسی وجوہات مانی جاتی ہے۔ایک تو گزشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ نے طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی جو پالیسی اپنائی تھی اور معاہدہ کے تحت اپنی فوج کو افغانستان سے ہٹانا شروع کیا تھا ٹرمپ کے بعد جو بائیڈن بھی ٹھیک اسی پالیسی پر قائم ہے۔بائیڈن انتظامیہ کے بیان کے مطابق امریکہ افغانستان سے ۵۰ فیصد کے قریب اپنے فوجی ہٹا چکا ہے اور ۲۰۲۱ ستمبر تک باقی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔لہذا پڑوسی ملک افغانستان میں صرف دو پارٹی باقی رہ جائیں گی جس میں امریکہ کی دخل اندازی ختم ہونے کی وجہ سے طالبان مزید مضبوط ہو جائیں گے ایسے میں وہاں کے مقامی حالات سے ہمیں متاثر نہ ہونا پڑے اس لیے یہ معاہدہ کیا گیا ہے۔
دوسری سب سے بڑی وجہ حالیہ دنوں چلنے والی افغان پیس پروسیس میں امریکہ کے ساتھ پاکستان اور چائنا دو اہم فریق بن چکے ہیں جس کا انٹرنیشنل پالٹکس میں فائدہ اٹھانے کی پاکستان پوری کوشش کرتا رہتا ہے۔ بھارت بھی ایک اہم پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے اس پروسیس میں اپنا کردار ادا کر کے پاکستان کی اہمیت بھی کم کر سکتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ علاقائی سیاست میں آنے والی یہ تبدیلیاں آنے والے دنوں میں کیا رنگ لاتی ہے۔

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!