موہن بھاگوت کا بیان ۔۔۔۔۔ صرف کہنے کی باتیں ہیں ؟

وہی یہ بوجہل و بولہب ہیں, بدل کے قالب جو آرہے ہیں
نئے زمانے کے رہبروں سے کبھی نہ ہرگز ۔۔۔ فریب کھانا

راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے اتوار کے روز بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ایک ہیں دونوں کا ڈی ین اے ایک ہے اور ساتھ ہی انھوں نے کئی باتوں کا خلاصہ کیا۔ جس کے بعد ملک بھر میں ہلچل مچ گئی ہے۔
موہن بھاگوت کے بیان سے چند لوگ متاثر ہوئے لیکن بعض کا کہنا ہے کہ یہ صرف کہنے والی باتیں ہیں۔ اگر یہ سچائی ہے تو اس کو ثابت کرنا پڑے گا۔ جس کے لیے ان مجرموں کو سزا دینی پڑے گی جو ماب لنچنگ جیسا جرم کرتے ہیں۔

بعض کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت نے جو کچھ کہا ہے وہ ایک اچھی بات ہے۔ اچھی پہل ہے اور ایک مثبت قدم ہے۔ مسلمانوں کو اسے مثبت طور پر قبول کرناچاہیے۔ ہندو مسلم اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور مذاکرات ہی اس کا راستہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی حکومت کو اس سلسلے میں ایسے قدم اٹھانے ہونگے جن سے مسلمانوں میں یقین اور اعتماد پیدا ہو سکے ۔ ان خیالات کا اظہار ملک کےممتاز دانشوروں اور اسلامی۔ اسکالرز نے کیا ہے

در اصل راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے لنچنگ کی مخالفت اور ہندو مسلمان اتحاد کے تعلق سے بیان نے ملک میں ہلچل نہیں بلکہ بھونچال پیدا کردیا ہے۔جس میں انہوں نے بہت کچھ کہا اور دل کھول کر کہا تھا۔ جس میں ان کے یہ خیالات سامنے آئے تھے کہ ہندو مسلم تنازعہ کا واحد حل بات چیت ہے، اختلاف نہیں۔’ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ یہاں کوئی مسلمان نہیں رہنا چاہئے تو وہ شخص ہندو نہیں ہے۔ اس کے بعد سے ملک بھر میں اس پر ردعمل سامنے آئے ہیں۔ سیاسی لیڈران اسے سیاست مان رہے ہیں حالانکہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ نہ تو ان کی تنظیم سیاست کا حصہ ہے اور نہ ہی انہیں سیاست میں دلچسپی ہے۔ بہرحال ملک کے مسلم دانشور اور اسلامی اسکالر اس کو ایک مثبت پہل مان رہے ہیں لیکن اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ مسلمانوں میں جو بے چینی اور بے اعتمادی ہے اسے دور کرنے کے لئے عملی اور ٹھوس قدماٹھانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ جیسا کہ مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر "پروفیسر اخترالواسع” نے کہا کہ موہن بھاگوت نے جو کہا ہے اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ اچھی بات کہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ موہن بھاگوت کو کچھ عملی طور پر بھی کرنا ہوگا، خالی بیان مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا ہے۔ آر ایس ایس اور حکومت کو چاہیے کہ ماب لنچنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ ایک کے ساتھ نرم اور ایک ساتھ گرم کا رویہ درست نہیں ہے۔ بہرحال انہوں نے ایک اچھی بات کہی ہے۔ اس کا خیر مقدم ہے لیکن بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ لیڈرشپ کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ کام کر رہی ہے۔

اسی طرح مفتی محمد مکرم احمد، (امام فتحپوری مسجد) نے آر ایس ایس کے سربراہ بھاگوت کے اس بیان پر کہا کہ میرے خیال میں بھاگوت صاحب نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے ،اس سے قبل بھی وہ اس قسم کے بیانات دے چکے ہیں۔ بیان اچھا ہے لیکن انہیں ماب لنچنگ جیسے واقعات کی مذمت کرنی چاہیے۔ خواہ مرنے والا کوئی بھی ہو۔ ایسے واقعات میں کون ملوث ہے اور کون نہیں وہ بہتر جانتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ ایسے واقعات کو روکنا ضروری ہے۔ مفتی مکرم نے مزید کہا کہ مسلمان کتنا ہندوستانی ہے اس کا ثبوت سرحد سے شہری زندگی تک مل رہا ہے۔ کسی بھی قربانی سے مسلمان پیچھے نہیں ہے۔ ملک کے لئے جان دینے کی بات ہو یا پھر اقتصادیات میں حصہ داری ۔ مسلمان ہر میدان میں ساتھ ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب کو اپنا اپنا مذہب پیارا ہے مگر سماجی طور پر ہم سب کو ملک کی ترقی کے لئے متحد ہوکر کام کرنا چاہیے۔

الغرض موہن بھاگوت کا یہ بیان ابھی بھی کئی لوگوں کے لیے ایک معمہ ہے۔ جو کچھ موہن بھاگوت نے کہا ہے کیا یہی”آر ایس ایس” کی سوچ ہے ؟ یا پھر ان کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے ؟ یا پھر یہ کوئی نئی چال ہے ؟ یہ تو حالات ہی بتائیں گے۔

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!