جو دل میں تھی وہ بات زباں پر آہی گئی

محمد اعظم شاہد

وزیراعظم مودی کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کہتے کچھ ہیں اورکرتے کچھ اور۔ یعنی ان کے قول وعمل میں واضح تضاد ہے، نمایاں فرق ہے۔ کتھنی اورکرنی دونوں الگ الگ ہیں اوراس میں جو مہارت انہیں (مودی) حاصل ہے اسی کو وہ اپنی کامیابی کا راز سمجھتے ہیں۔جب بڑے بڑے ان کے وعدے وہ پورا کرنے سے رہے۔ان (مودی) کے وعدے صرف زبانی وعدے ہی رہ گئے۔ اس پروزیرداخلہ امیت شاہ نے کہاتھا یہ وعدے محض ایک جملہ ہیں۔ یعنی ”جملہ بازی“ مودی کا منفرد انداز ہے۔ ان کے اس اسٹائل کے ان کے ہزاروں لاکھ اندھ بھکت ان کے قدر دان ہیں۔اورجتنے بھی نعرہ مودی جی نے لگائے جیسے”بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ، سب کا ساتھ سب کا وکاس، اورسب کا وشواس، نہ کھاؤں گا اورنہ کھانے دوں گا“۔یہ نعرے بس نعرے ہی بن کررہ گئے۔ حقیقت سے ان کا کوئی واسطہ ہی نہ رہا۔
”سب کا ساتھ“ یہ نعرہ مودی نے ملک کے تمام ہم وطنوں سے متعلق کہاتھا جس میں کسی بھی طرح کا بھید بھاؤ نہیں رہے گا۔ اورسب کا وکاس (ترقی) کی باتیں کرنے والے وزیراعظم جن کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے کیوں نہ رہا ہو وہ بلا تفریق مذہب، ذات پات سب کے وزیراعظم ہوئے۔ مگر ان کے نعرے اوران کی حقیقت یوں تو کئی بار پورے ملک پر واضح ہوتی رہی ہے۔اس بار کے لوک سبھا انتخابات (2024) میں چار سو نشستیں (سیٹیں) حاصل کرنے کا اعتماد رکھنے والے مودی نے ایک بار مذہبی خطوط پر ہندو مسلم نفرت اورتفریق کو بڑھانے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ آخر جو دِل میں تھی وہ بات زبان پر آہی گئی۔ 22 /اپریل کو راجستھان کی ایک الیکشن ریلی کے دوران مودی نے کہا کہ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں بتایا ہے کہ اگر وہ (کانگریس) اقتدار میں آتی ہے تو ملک کی دولت مسلمانوں میں تقسیم کریں گے اور اس طرح دوسرے ذات پات کے لوگوں کا حق مارا جائے گا۔ مودی اپنے روایتی چلاتے ہوئے انداز میں مسلمانوں کو درانداز، گھس پیٹھئے، یعنی ملک میں غیرقانونی طورپر داخل ہونے والے کہا کہ وہ لوگ (مسلمان) جن کے زیادہ بچے ہیں ان میں ملک کی دولت تقسیم ہوجائے گی اوریہ کانگریس کا تشویشناک منصوبہ ہے۔مسلمانوں کے خلاف ہر کوئی بھاجپا میں زہر اُگلتا رہتا ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔مگر وزیراعظم مودی کی مسلمانوں سے نفرت کا کھلے عام اعلان ہر لحاظ سے غیرذمہ دارانہ اورافسوسناک ہے۔ اس بیان کی مذمت نہ صرف ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے کی ہے بلکہ بیرونی ممالک کے میڈیا نے بھی اس کو غیرآئینی، غیر جمہوری اور جانبدارانہ قرار دیا ہے۔تلنگانہ میں بھی ایک ریلی کے دوران مودی نے مسلمانوں کے ریزرویشن Reservation پر بھی کئی سوال اٹھائے۔بالخصوص کرناٹک میں مسلمانوں کو ان کی پسماندگی کی بنیاد پر دئے گئے ریزرویشن کو نشانہ بناتے ہوئے مودی نے کہا کہ مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن دینا غیر قانونی ہے۔ پھر اپنا سخت موقف جتاتے ہوئے مودی نے کھلے عام اعلان کیا کہ جب تک وہ (مودی) زندہ ہیں مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دیں گے۔ اس بیان کی بھاجپا کے قومی صدر جے پی نڈا نے بھی حمایت کی ہے۔سال 2006 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کے مسلمانوں کی پسماندگی دورکرنے کے حوالے سے ان کے ایک بیان کو اپنے مفاد کے لیے توڑمروڑ کر پیش کرنے والے مودی کی نیت مسلمانوں کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کو غیر ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہوئے مودی نے ہندو مسلم تفریق کے نام پر ہندوتوا کارڈ کھیلتے ہوئے ہندوؤں کے ووٹ بٹورنے کی ساجھے داری کا مظاہرہ کیا ہے۔مسلمانوں کے تئیں اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی تنگ نظری، جہالت اورفرقہ پرستی کا مظاہرہ کرنے والے مودی نے آخرکار اپنی مقبولیت کو دوبارہ برقرار رکھنے اور اپنی ساکھ کی سلامتی کے لیے قصداً ملک کے مسلمانوں کو معیوب قراردیا ہے۔کہاں ہے سب کا ساتھ اور سب کا وکاس، آئین کی پاسبانی اور جمہوری اقدار کی معنویت آخر کہاں چلی گئی۔
اپنی نفرت انگیز باتوں کی چاروں طرف باز گشت دیکھ کر مودی نے ایک بارپھر پانسہ پلٹا۔ کل 7/ مئی کو ایک ٹی وی چینل کے ساتھ بات کرتے ہوئے مودی نے کہاکہ وہ نہ مسلمانوں کے خلاف ہیں اورنہ ہی اسلام کے۔ دہائی دیتے انہوں (مودی) نے کہا ہے کہ مسلمان بہنیں جا نتی ہیں کہ مودی سچے آدمی ہیں۔طلاق ثلاثہ کے خاتمہ کے بعد آیوش مان ہیلتھ کارڈ کے فائدے ان تک پہنچانے اور کووِڈ ویکسن کی فراہمی پر مسلم بہنیں اپنا ہمدرد ما نتی ہیں۔ مسلمانوں کو آواز دیتے ہوئے مودی نے کہا ہے کہ کون حکومت بنائے گا اور کس کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے، ان معاملات میں اُلجھے بغیر اپنے (مسلمانوں کے) بچوں کے مستقبل کے لیے اپنا محاسبہ کرتے ہوئے بدلتے ملک کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا ہے۔مسلمانوں کے لیے وقت کی آ واز ہے۔اپنی چرب بیانی سے مودی نے جو کچھ پہلے کہا تھا۔اس سے انحراف کرتے ہوئے مسلمانوں کو خوش کرنے ایک نیا بیان دے دیا ہے۔
کہا ملئے ایسے لوگوں سے جن کی فطرت چھپی رہے
نقلی چہرہ سامنے آئے اصلی صورت چھپی رہے
زبان چلتی ہے حالات کا دھارا بدلنے اور اپنا الو سیدھا کرنے۔جب چاہے تب اپنا موقف بدلنے والے مودی سے متعلق کیا بات کریں۔ اہل نظر جان گئے ہیں بھاجپا کا آر ایس ایس والا مسلم دشمنی والا ایجنڈا باربار اپنا روپ بدلتا رہتا ہے۔اس الیکشن میں مسلمانوں کو کس زاویہ سے نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کے بدلے میں مذہب کے نام پر ووٹ بٹورنے کا کیسا منصوبہ ہے، یہ سب پر واضح ہے – الیکشن کمیشن نے مودی کی نفرت انگیز تقاریر پر کیا کارروائی کی ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا۔اس پر کیا کہیں یا نہ کہیں۔

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!