افغانستان میں طالبان کی غیر معمولی کارروائیاں : وہ بھی امریکہ کے ہتھیاروں سے ۔۔۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جاری بیس سالہ جنگ ایک امن معاہدہ پر ختم تو ہوئی اور امریکہ اپنے سب سے فوجی اڈے چھوڑ کر افغانستان سے لوٹ بھی گیا۔لیکن امریکہ کی واپسی کے بعد افغانستان میں حالات اتنی تیزی سے بدلے جس کا تصور خود امریکہ اور افغانستان نے بھی نہیں کیا ہوگا۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حالات کی تبدیلیوں کے پیچھے واضح طور پر امریکہ کی ایک بڑی سیاسی غلطی تھی۔
بیس سال پہلے امریکہ نے افغانستان میں جب جنگ شروع کی تھی تو اربوں ڈالر خرچ کر کے جنگی ہتھیاروں کا ذخیرہ جمع کیا تھا تاکہ طالبان کو شکست دی جائے لیکن اب جب امریکہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو چکا ہے بلکہ پیچھے ہٹ چکا ہے تو بڑے سیاسی بلنڈر کے طور پر امریکہ اپنے ان ہتھیاروں اور ٹینکوں کے بڑے ذخیرہ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے صرف اس لیے کہ یہ ہتھیار قابل استعمال ضرور ہیں البتہ امریکہ کے ان معیاروں پر پورے نہیں اترتے ہیں جن معیار کے ہتھیار ہی امریکہ جنگوں میں استعمال کرتا ہے۔ادھر امریکہ کا ہتھیاروں کو چھوڑ کر جانا اور دوسری طرف طالبان اور افغان فوجوں کے درمیان جھڑپ ہونا۔امریکہ کے سائے میں رہنے والی افغان فوجیں اس قابل نہیں تھی کہ وہ اس مقابلہ کو برداشت کر سکے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ طالبان نے قندھار پر قبضہ کرلیا اور افغان فوجی یا تو سرینڈر کر رہے ہیں یا تو ہمسایہ ممالک میں بھاگ رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق حالات اسی طرح رہے تو طالبان اگلے ایک دو مہینہ میں کابل پر بھی قبضہ کر لیں گے اور پورے افغانستان پر ان کی حکومت ہوگی۔

ان سیاسی حالات نے چائنا اور امریکہ کی دشمنی میں بھی ایک الگ رنگ بھرا ہے وہ یہ کہ ایک طرف امریکہ اپنی فوجوں کو واپس بلا کر اس خطہ میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑا دھکا لگا چکا ہے اور دوسری طرف چائنا طالبان کے ساتھ تعلقات بڑھانے بلکہ پروجیکٹس میں شرکت کرانے تک تیار ہے۔جو کہ یقینا اس خطہ میں اس کے سیاسی رسوخ کو مزید مضبوط کر دے گا۔

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!