ممتاز قانون دان اے جی نورانی بے باک دانشور تھے

محمد اعظم شاہد

ملک کے ممتاز ماہر قانون،آئین ہند پر مکمل دسترس کے حامل،لائق احترام دانشور،معروف اسکالر اور سیاسی مبصر اے جی نورانی (عبدالغفور عبدالمجید نورانی)۴۹ سال کی عمر میں ۹۲/اگست ۴۲۰۲ ہم سے رخصت ہوگئے۔مگر عدالتوں میں اُن کے تاریخ ساز مقدمات کے پیروی،اُن کے قانون،آئین کے اُمور،سیاسی معاملات،فرقہ واریت کا جنون،آزادی اظہار خیال پر پابندی،عدم رواداری،حکومت کی غیر منصفانہ پالیسوں پر اُن کے بے لاگ اور بے باک تبصروں پر مشتمل اُن کے مضامین اور اُن کی کتابوں کی افادیت و معنویت کی باز گشت عرصہ دراز تک سنائی دیتی رہے گی۔ ممبئی میں سکونت پذیر نورانی صاحب پورے ملک میں اپنی وسعت نظر،بے باک مطمع نظر اور مدلل تحریروں اور تبصروں کے لیے علمی،سیاسی اور قانون دانوں کے حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔اکثر کہا جاتا رہا ہے کہ عدالتوں کے کورٹ روم میں مقدمات کی پیروی کرنے والے معروف اور مصروف وکلا کو گہرے مطالعہ اور تصنیف و تالیف کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ اور جن کوان سب علمیacademic مصروفیات کا ذوق نصیب ہوجاتا ہے انہیں عام طور پر عدالتوں اور قانون دانوں میں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ اے جی نورانی قانون دان کے طور پر بھی کامیاب گزرے ہیں۔ اور ان کی محققانہ کاوشیں جن کے باعث ملک کے آئین کی روایات اور وراثت،تاریخ،قانون کے اُمور و نکات،ملک کے سیاسی حالات،حکومت کی نااہلی اور غیر ذمہ داری پر لکھے ان کے مدلل مضامین،تبصرے اور کتابیں ملک کی عصری علمی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہیں۔ بطور لائق اعتبار اسکالر بھی ان کی قدردانی قانون،آئین،سیاست،علم و تحقیق کے حلقوں میں کچھ کم نہیں تھی۔ بہت کم ایسے کامیاب اور شہرہ آفاق قانون دان رہے ہوں گے، جنھوں نے عدالتوں میں اپنی کامیاب مقدمہ بازی کو خیرباد کہتے ہوئے اپنے مضامین اور کتابوں میں قانون،تاریخ،آئین کے کئی پہلووں کی تاریخی دستاویزات اور دلائل کی روشنی میں پیش کیا ہو۔ یہ کاوش نہ صرف دور عصر میں بلکہ آنے والے برسوں میں محققین اور ذوق مطالعہ کے حامل احباب کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ کئی برسوں سے ان کے مضامین اور حالات حاضرہ پر ان کے تبصرے ملک کے موقر اخبارات جیسےPolitical Weekly, The Indian Express, The Statesman Economic &
The Hindu, Dawn (Pakistan) ، Frontline اور فرنٹ لائین میں مسلسل شائع ہوتے رہے۔ فرنٹ لائن،پندرہ روزہ میگزین کے لیے آپ مسلسل لکھتے رہے۔ ان کی تحریریں بڑے انہماک اور چاو کے ساتھ جج صاحبان،وکلا،آئینی امور کے ماہرین اور باذوق قاری پڑھا کرتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی مقدمات کی شنوائی کے دوران جج حضرات اوروکلا نورانی صاحب کے دلائل کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ کسی بھی پیچیدہ اور غور طلب معاملہ پر تبصرہ کرنے والے اور کتابیں لکھنے والے مصنفین ان کی کتابوں اور مضامین کے برمحل حوالے استعمال کرتے آئے ہیں۔
کشمیر تنازعہ،آرٹیکل ۰۷۳:جموں اور کشمیر کی آئینی تاریخ،حیدرآباد کی تباہی،بھگت سنگھ کی جراحی(انصاف کی سیاست) جناح اور تلک: تحریک آزادی میں دو دوست،ہندوستانی سیاسی مقدمات کی جراحی(۵۷۷۱تا۷۴۹۱) آرایس ایس اور بی جے پی،آر ایس ایس:ملک کے لیے خطرہ،ساور کر اور ہندو توا،شہریوں کے حقوق اور ہندوستان اور چین کا سرحدی مسئلہ،بابری مسجد کا تنازعہ(سوال)۳۰۰۲۔۸۲۵۱ ملک کے وقار کا مسئلہ (کتابوں کے نام اُردو میں پیش کیے گئے ہیں۔ یہ تمام کتابیں انگریزی میں لکھی گئی ہیں۔)ایسی کتابوں کے مصنف اے جی نورانی جنھیں غائر مطالعہ کا ذوق تھا، تاریخ کے اوراق سے حقائق اخذ کرنے اور دلائل کے تلاش کی جستجو اُن کی شخصیت کا وصف خاص تھا۔ انھیں خراج عقیدت پیش کرنے والے مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے احباب نے لکھا ہے کہ ہرروز اخبارات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنا اور اہم موضوعات پر اخبارات سے تراشے کاٹ کر موضوعاتی فائلس بنایا کرتے تھے۔ نورانی صاحب کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں تاریخ، قانون،آئین اور واقعات کی معلومات کا ایک بھرپور خزانہ موجود تھا۔ کسی بھی موضوع پرحقائق کی روشنی میں مدلل تحریر کرنے اور تقریر کرنے میں اپنی منفرد شناخت کے حامل تھے۔ انھیں ان کی علمیت اور معلومات کی بنیاد پر بلامبالغہEncyclopedia (معلومات کا ذخیرہ)کہا جاتا تھا۔
کشمیر معاملے پر اُن کی تحریر یں،مشاہدات اور تجربات اُن کے غریق مطالعہ اور مشاہدے کے باعث مستند سمجھی جاتی تھیں۔ کشمیر اور حیدرآباد کا ملک کے یونین میں شمولیت پر انھوں نے اپنی کتابوں میں تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ ملک کی سا لمیت اور ریاستوں کے استحکام و قیام میں حصول آزادی کے بعد جن مراحل سے گزرنا پڑا ہے وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اپنی بے باکی کے لیے مشہور نورانی صاحب نے بے خوف و خطر اپنے موقف کا اظہار کرنے میں سب سے آگے رہے ہیں۔ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کا موزانہ ڈکٹیٹر ہٹلر سے کیا تو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے فیصلے پر مودی کو تغلق کہنے میں بھی عار نہیں سمجھا۔ شیخ عبداللہ کی رہائی کا مقدمہ ہو یا پھر تمل ناڈو کے کروناندھی کی حراست کا معاملہ ان مقدمات کی پیروی کرتے ہوئے نورانی صاحب نے مقدمہ بازی کی تاریخ رقم کی تھی۔اور نام و نمود اور سستی شہرت سے فاصلہ بنائے رکھنے والے اس نڈر دانشور کو ملک کے موجودہ حالات سے سخت کوفت تھی۔ اپنے اصولوں کے ساتھ کبھی بھی کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہ کرنے والے نورانی صاحب وقت کے سخت پابند تھے۔ان کے احباب کا حلقہ محدود ہی رہا۔ گو کہ پوری زندگی انھوں نے تنہائی میں ہی گزاردی۔لذیز کھانوں کے شوقین نورانی صاحب صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ اس معاملہ میں کسی کی دخل اندازی انھیں قبول نہیں تھی۔ ان کی کئی کتابیں بالخصوص آر ایس ایس اور ہندو توا سے متعلق میں نے نہایت ہی معلوماتی محسوس کی ہیں۔ہندوستانی مسلمانوں پر ان کے مضامین اور اس موضوع پر ان کی کتاب آپ کی تحقیق اور مشاہدات کی عرق ریزی کا بین ثبوت ہے۔ میرے مطالعہ میں ان کے مضامین اور کتابیں مستقل طور پر رہے ہیں۔ان کے کئی مضامین کی میں نے فائل بھی بنائے رکھی ہے۔ اکثر عصری موضوعات پر لکھنے سے قبل ان کے تجزیئے میرے لیے مفید ثابت ہوئے ہیں۔ کئی خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔نورانی صاحب۔آپ کی تحریریں ان کی یادوں کو تابندہ رکھیں گے۔ان شاء اللہ۔٭٭٭

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!