اردو صحافت کا آغاز ،ارتقاء اور موجودہ المیہ

سلمان عبد الصمد

اردو اخبار نویسی کی تاریح انتہائی پرانی بھی نہیں ۔ دراصل اس کی شروعات چھاپہ خانے کے رواج کے بعد سے ہوئی ۔ کوئی ڈیڑھ سو برس کی مدت میں روشن اور تابناک تاریخ کی کئی منزلیں اس نے طے کی ہے ۔ یوں تو1822ءمیں کولکاتا سے سب سے پہلے اردو اخبار ”جام جہاں نما“جاری ہوا۔ اس کے بانی ہری ہردت اور اڈیٹر عزت مآب لا لہ سدا سکھ تھے ۔ انگریزی تجارتی کو ٹھی کی یہ ملکیت تھی ۔ یہ بھی واضح ہوکہ چند اسباب کی بنیاد پر مذکورہ اخبار کو اردو کا سب سے پہلا اخبار تسلیم نہیں کیا جاتاہے ۔ ان میں بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ اخبار کچھ زبانِ اردو اورکچھ زبانِ فارسی میں نکلتاتھا ۔ چنانچہ تسلیم یہ کیا جاتاہے کہ سب سے پہلا خالص اردو کا اخبار ”اخبار دہلی “تھا ، جس کے بانی مولانا محمد حسین آزاد کے والد محترم مولوی باقر نے دہلی سے جاری کیا تھا ۔ بہت سے معلومات افزا مضامین علمی ، ادبی ،تاریخی اورتعلیمی موضوعات پر اس میں شائع ہوتے تھے ۔ 1857کی جنگ آزادی میں اس اخبار کا بڑااہم کردار رہا ہے ۔چونکہ اس کی پالیسی آزاد خیالی تھی ، اس لئے اس زمانہ میں سامراجی حکومت کے خلاف خوب لکھا گیا ۔ ہندوستانی قوم پرستی یعنی حبِ وطنی کی حمایت کی ۔ یہی وجہ ہے کہ غدر فرو ہونے پر مولوی باقرکو پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا اور اس طرح حب الوطنی کے محاذ کی قربان گاہ پر اردو صحافت کے پہلے قوم پرور اورمحب وطن کی قربانی ہوئی ۔اردوکے دوسرے اخبار کے طورپر ”سید الاخبار“کا نا م سامنے آتا ہے ۔ اس کی ابتدا ءدہلی میں ہی سرسید کے بھائی محمد کے ہاتھوں ہو ئی تھی ۔ یہی وہ اخبار ہے جس کے ذریعہ سرسید کے خیالات سے عوام متعارف ہوئے ۔اس کے بعد سے اردو اخبار کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتاہے ، جوانمرد ، محب وطن ، بےباک و نڈر بہت سے قلم کے شہ سوار صحافتی افق پر نمودار ہوتے ہیں ، آسمان ِ صحافت کے اولین ستاروں میں مولانا ظفر علی خان ، مولانا ابو لکلام آزاد ، مولانا محمدعلی جوہر ، مولانا حسرت موہانی اورمولانا عبد الحمید سالک وغیرہ ہیں ۔آزادی سے قبل ہی اخباروں کاجا ل بچھ گیا تھا ۔ صرف اخبار ہی نہیں بلکہ رسائل وجرائد بھی سامنے آئے ، جنہوں نے اپنی اپنی نگارشات سے عوام کی رہنمائی کی ، ان میں سیاسی اورثقافتی شعور بیدار کیا ۔ الہٰ آباد ، لکھنو ، آگرہ ممبئی ، جے پور ، کشمیر غرض کہ پورے ہندوستان میں اردو صحافت بیداری کی لہر چلنے لگی ۔ روزناموں میں ”پیشہ “(لاہور)”وکیل “(امرتسر)”زمیندار“(لاہور)”پرتاب“(لاہور)وغیرہ سرفہرست تھے ۔ انہوںنے صحافتی دنیا میں بڑا نا م کمایا ۔جہانتک ہفت روزہ اخبار کا تعلق ہے تو ”کوہ ِ نور “کانا م انتہائی نمایاں ہے ، جو لاہور سے شائع ہوتا تھا ، اس میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خلاف بھی مضامین لکھے گئے ، جس کی پاداش میں اسے بند کرنا پڑا ۔ ادب اور سیاست میں منشی کنول کشور کا”اودھ پنچ“بھی بلند معیا ر کا تھا ، اس کے معیاری ہونے کے ثبوت میں منشی سجاد حسین ، مولانا عبد الحلیم شرر ، پنڈت رتن ناتھ سرشار وغیرہ کا اڈیٹر ہونا بھی ہے ۔ اسی طرح ریاض خیر آبادی کا ”ریا ض الاخبار “بھی شعروادب کے لئے معیاری تھا ۔دبدبہ سکندری (رام پور )نو رالانوار (کانپور)آصفہ الاخبار (حیدرآباد)اپنے دورکے معیاری اوربہترین اخبار تھے ۔ بیسویں صدی میں سرداردیوان سنگھ کے ہفت روزہ اخبار ”ریاست“نے بھی بڑی شہرت کمائی ، معروف ومشہور والیان ریاست کے ذاتی واندرونی معاملات وحالات کی نقاب کشائی اس کے ذریعہ ہوئی ، ان کے اس کارنامہ پر دھمکیاں دی گئی ، سازش رچی گئی ، مگر سردار دیوا سنگھ نے ثابت قدمی دکھائی ، تما م دھمکی آمیز رویہ سے لاپر واہوکر اپنے مشن میں لگے رہیں ۔وہ انتہائی نڈراوربے باک تھے ۔بلا تفریق ہندو مسلم دونوں نے صحافتی میدان میں کافی طبع آزمائی کی ، اردو صحافت کے فروغ میں انہوں نے تقریباً یکساں حصہ لیا ۔ آزادی سے قبل لگ بھگ اردو ملک کے ہر گوشہ میں تھی ، اس لئے اردو صحافت کو ملک کے چپہ چپہ اورقریہ قریہ پر فروغ ہوا ۔ ہر طبقہ اپنے خیالات و نظریات کی تبلیغ واشاعت کے لئے اردو کا انتخاب کرنے لگا ۔ یہی وجہ تھی کہ چند سالہ عرصہ گزرانہیں کہ اردو صحافت کو منفرد مقام نصیب ہوا ، اس کو ملک گیر حیثیت حاصل ہوگئی ۔اردو رسائل و جرائد کے ذریعہ علم وادب کی خوب ترویج و اشاعت ہوئی ۔ سید امتیاز علی تاج کا”کہکشاں “ سرسید کا ”تہذیب الاخلاق “مولاناحسرت موہانی کا ”اردوئے معلی “سرعبدالقادر کا ”مخزن “مولانا آزاد کا” لسان الصدق “حکیم محمد یوسف کا ”نیرنگ خیال “خواجہ حسن نظامی کا ”نظام المشائخ “راشد الخیری کا ”عصمت“شاہد احمد دہلوی کا ”ساتی“مولوی عبدالحق کا سہ ماہی ”اردو“اورماہنا مہ ”سائنس “وغیرہ ایسے پر مغز اور معیاری رسالے تھے جن سے علم وادب اورسیاست و ثقافت کی عظیم الشان تاریخ وابستہ ہے ۔بیسویں صدی کی صحافت میں سب سے اہم اور نمایاں نا م مولانا ابو الکلام آزاد (محی الدین احمد)کا ہے ۔ یوں توں ان کی پیدائش 1888ءمیں مکہ میں ہوئی مگر گیارہ برس کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ واپس آنے کے بعد اردو سیکھی تھی ، باوجو د اس کے اردو کے عالمِ تشبیہ ، استعارہ اورتلمیح و کنا یہ کے بادشاہ تھے ۔ جہاں وہ ایک بے باک اورنڈر صحافی تھے وہیں ایک عالم دین اورصاحب طرز ادیب بھی ۔ ان کی نثر کی خوبیوں کو دیکھ کر ایک نقاد کو کہنا پڑا کہ اگر قرآن اردومیں نازل ہو تاتو اس کے لئے ابوالکلام کی نثر منتخب کی جاتی ۔ مولانا حسرت موہانی نے مولانا کی نثر کودیکھ کر کہا تھا :جب سے دیکھی ہے ابو الکلام کی نثرنظمِ حسرت میں کچھ مزہ نہ رہابہر کیف ! مولاناآزاد کا ہفت روزہ ”الہلال و البلاغ“اردو میںسنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان دونوں اخبار کے ذریعہ انہوں نے مسلمانوں میں سیاسی اور قومی بیداری کی روح پھونک دیں، مردہ ضمیر کو جھنجھور دیا ، سردانگیٹھیوں کو گرمایا ، زندہ دلی اور او لوا لعزمی کا سبق سکھایا ۔ ان کاشاندار انداز خطابت اوربلند آہنگ اسلوب نگارش ؛ دعوت وعزیمت اوراستقلال و جوانمردی کا سبق لئے صحافی افق پر نئے رنگ وروپ میں نمودار ہوا ۔ جس سے اصحاب قلم اورتعلیم یافتہ طبقہ بھی محو حیرت تھے ۔ ان کی شعلہ نوائی اورآزاد گفتاری نے سامراجی قلعوں کو تھرا دی تھی ۔ ”الہلال “کی شروعات تو 1912میں ہوئی تھی ، اس کی آتشیں اور گرانمایہ تحریروں نے ایک ہلچل سی مچادی تو اس کی ضمانت ضبط ہوگئی ، اس کی ضبطی کے بعد ”البلاغ “منصہ شہود پر آیا ۔ اس کی عمر تو انتہائی قلیل رہی ، کوئی سال بھر بھی یہ نکل نہ سکا ۔ مولانا آزاد کو ان دونوں اخبار کے پاداش میں نہ جانے کیسی کیسی مصیبتیں جھیلنی پڑی ، قید وبند کی صعوبتیں زندگی گزارنی پڑی ، زبر دست مالی خسارہ ہو ا۔ مگر انہوں نے اپنی روش ترک نہ کی ۔ بلاشبہ ان دونوں پرچوں سے اردو صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہو تا ہے ۔آزادی کے بعد اگرچہ اردو صحافت ورسائل کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر اردو تعلیم کے محدود ہونے کی وجہ سے اس کاحلقہ بھی محدو د ہو تا نظر آرہاہے ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج اردو صحافت ناموافق حالات سے دوچارہے ۔ اس کے باوجود بھی اردو کے شیدائیوں نے صحافتی معیار کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس کی روایت کو بڑے اہتمام سے آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے ، اورایک حد تک ا س کوشش میں کامیاب بھی نظر آرہے ہیں ۔ اگر ان دنوں روزناموں پر نگاہ ڈالیں گے تو بے شمار اخبارات نظر آئیں گے ، مثلاً ، راشٹریہ سہار ا، اردو ٹائمز ، سیاست ، انقلاب ، ہمارا سماج ، ہندوستان اکسپریس، قومی تنظیم ، آگ ، قومی خبریں ، فاروقی تنظیم ، صحافت ، سیاسی افق ، سالا ر ، اودھ نامہ،وارث اودھ ۔ اسی طرح موقر رسائل و جرائد کابھی لامتناہی سلسلہ ہے ، مثلاً اردو دنیا ، افکار ملی ، عالمی سہارا ، بزم سہارا، بانگ حراء، تعمیر حیات ، نقوش اسلام ، تعمیر ملت ، معارف ، نیا درو ، ندائے شاہی ، نوائے ہادی، تعمیرملت ، ھدی ٰ، منصف وغیرہ ۔ان دنو ں اخبارات میں تعلیمی ، سماجی ، ثقافتی تحریریں بہت کم ہوتی ہیں ، سیاسی مضامین کا دور دورہ ہے ۔ حالانکہ سیاست کے علاوہ دیگر موضوعات کو بھی یکساں جگہ دینا قریب از فہم ہے ۔یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ناموافق حالات میں بھی اردو صحافت نے عوام کو سہارا دیا اوراب بھی دے رہی ہے ، مگر ی بد قسمتی کی بات ہے کہ جس طرح آج سیاست سے شفافیت عنقا ءہے اسی طرح صحافت سے بھی شفافیت دور ہوتی جارہی ہے ۔ سیاست کا آج صحافت پر دبدبہ ہے اس لئے وہ بھی اس کے اثرات بد سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ واقعی ان دنوں جو بھی کام سیاست کی نذر ہوجائے بننے کے بجائے بگڑ جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے بھی صحافت میں دیگر موضوعات کو جگہ دینا زیادہ بہتر ہے ۔صحافت پر سیاست کے غلبہ کی وجہ سے اس کا سب سے اہم عنصر بھی غائب ہوتا نظر آرہاہے ، صحافت اورصحافیوں کا خمیر دراصل ”جوانمردی ، او لوالعزمی ، بلند حوصلگی اوربے باکی “سے تیا رہونا چاہئے ، اس میں رتی برابر بھی بدعنوانی کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ، مگرافسوس کہ سیاست نے ان اوصاف پر دبیز پردے ڈال دئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ علی العموم صحافیوں سے بلندحوصلگی اوربے باکی کی صفت سلب ہوتی جارہی ہے ، وہ اس کی زد میں حق گوئی سے کترانے لگے ہیں ۔ان کے نیک جذبات اورروشن خیالات بسااوقات روزناموں کے مالکان کے سیاسی مفادکی بنیاد پر لفظوں کا جامہ نہیں پہن پاتے ہیں ،گویا آج سیاست بھی صحافت کے لئے ایک المیہ ہے ۔

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!