مدارس کے طلبہ کو پروفیشنل تعلیم سے آراستہ کرنا وقت کی ضرورت

ڈاکٹراحمد علی جدہ، سعود عرب

اسلام نے تعلیم وتعلم، درس وتدریس اور علم ومعرفت کے سلسلے میں جو احکامات دیے اور اس کی وجہ سے پڑھنے پڑھانے کا جو چلن اور رواج ہوا ہے، اس نے دنیا کوجہالت کی تاریکیوں سے نکالا ہے، قرآن کریم کے نزول کے ساتھ دورِ جہالت کا خاتمہ ہوا ہے، مسلمان جہاں کہیں گئے علم کا چراغ روشن کیا، اور وہاں کی ضرورت کے اعتبار سے ایجادات وانکشافات میں ایسا حصہ لیا کہ بہت سارے علوم کے وہ بانی مبانی ہوگئے، یہ وہ دور تھا جب علم تقسیم نہیں تھا اور ایک فرد کے لیے ممکن تھا کہ وہ جامع معقول ومنقول کی حیثیت سے سامنے آئے اور لوگ علوم وفنون میں اس کی گہرائی اور گیرائی سے بھر پور فائدہ اٹھاسکیں، اس زمانہ میں آج کی طرح علمِ دین ودنیا کی تقسیم نہیں تھی، اور ساری توجہ علمِ نافع کے حصول پر صرف کی جاتی تھی اور غیر نفع بخش علوم سے اللہ کی پناہ چاہی جاتی تھی، نفع بخش علوم کی حیثیت صدقہ جاری کی تھی اور مخربِ اخلاق علوم کی طرف کوئی جانا پسندنہیں کرتاتھا۔
پھر زمانہ کی قدریں بدلنے لگیں، علوم میں تنوع پیدا ہوا، اور اس کا دائرہ بڑھتا چلا گیا، ایسے میں کسی ایک شخص کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ تمام علوم پر یکساں دسترس رکھے، اسی طرح اداروں کے لیے بھی سارے علوم اور ان کی شاخوں کو پڑھنا پڑھانا دشوار تر ہوتا چلا گیا، اس صورتِ حال کی وجہ سے عملی طور پر مختلف علوم وفنون کے لیے الگ الگ ادارے وجود میں آنے لگے؛ تاکہ ہرادارہ اپنے موضوع پر پوری توجہ صرف کر سکے اور اس کے حاملین میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہو سکے، اس سوچ نے تخصصات کے اداروں کو وجود بخشا اورہندوستان میں مدرسہ اور اسکول کا مفہوم الگ الگ ہو گیا، عالم اور دانشور کی اصطلاح وجود میں آئی اور دونوں الگ الگ علوم کے نمائندہ سمجھے جانے لگے۔
یہی وہ زمانہ ہے، جب دینی تعلیم کے لیے کثرت سے ادارے وجود میں آئے اور ان میں خالص مذہبی علوم کی تدریس ہونے لگی،یہاں کے فارغین نے دینی بنیادوں پر سماج میں کام شروع کیا، خدا بیزاری کے بجائے خدا شناسی کی ترغیب دی، انہوں نے”اجرت“ کے بجائے”اجر“ کی نیت سے کام کیا اور سماج ومعاشرہ میں صالح قدروں کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ان ساری قربانیوں کے باوجود مسلمانوں نے اس کی اہمیت کو کم سمجھا جس کی وجہ سے سماج میں ایک عالم کی حیثیتغریبکی جورو سب کی بھابی بن کر رہ گئی ہے ہر کس و ناکس چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا کر مدارسِ کے ذمے داران اور مساجد کے ائمہ سے الجھتا رہتا ہے ایسے حالات میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کیا علماء کرام صرف دینی تعلیم حاصل کر محض ایک کھلونا بن کر رہ جائیں یا انھیں بھی پروفیشنل تعلیم کے حصول کیلئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جس سے کہ انکی معیشت کا معاملہ حل ہو اور وہ مالی اعتبار سے اتنے مضبوط و مستحکم ہوں کہ امامت کے فرائض مفت میں خالص اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے انجام دے سکیں دوسرے یہ کہ کیا مدارس دینیہ کے نظام تعلیم میں کچھ تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں جس سے طلبہ دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کرکے مختلف زبانوں میں اسلام کا صحیح تعارف غیروں کے سامنے پیش کر سکیں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کے نظام تعلیم میں کچھ بھی تبدیلی کئے بغیر عصری تعلیم کیلئے وہاں ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں دینی تعلیم کا تقصان بھی نہ ہو اور طلبہ کو عصری تعلیم کے حصول کا بھی بھرپور موقع مل سکے چونکہ موجودہ حالات میں مدارسِ اسلامیہ سے وابستہ لوگوں کا مالی اعتبار سے مضبوط ہونا نہایت ہی ضروری ہے اس سے ایمان میں بھی تقویت ملے گی اور اعمال صالحہ کرنے میں بھی خوب لطف آئے گا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام کو عبرانی زبان سمیت دیگر زبانوں کے سیکھنے کی تلقین فرمائی تھی اور قرآن وحدیث میں دینی و دنیاوی تعلیم کو کہیں نہیں دو خانو میں تقسیم کیا گیا ہے بلکہ صاف الفاظ میں نفع بخش علم کے حصول کی تلقین کی گئی ہے اور غیر نافع علم سے منع کیا گیا ہے مذکورہ بالا تمام باتوں پر اگر سنجیدگی سے غور کریں تو اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ مدراس کے طلبہ کو پروفیشنل تعلیم سے آراستہ کرنا بہت ضروری ہے علماء کرام اور دانشوران عظام کو اس سلسلے میں مل بیٹھ کر غور کر لینا چاہیے اور ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے جس سے نہ ہی دینی تعلیم کے حصول میں کوئی خلل واقع ہو اور نہ ہی عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں مدارس کے طلبہ کسی سے پیچھے رہ سکیں دیگر احباب بھی اس سلسلے میں اپنی رائے رکھنے کے اہل ہیں مجھے امید ہی نہیں بلکہ پورا یقین ہے کہ علماء کرام اور دانشوران عظام کا ایک طبقہ اس پر سنجیدگی سے غور وفکر کرکے اسلامی نہج پر عصری تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسے نظام تعلیم کا خاکہ تیار کریں گے جس سے یہ فائدہ ہوگا کہ طلبہ مسلمان رہ کر ہر میدان میں اپنے علم کا پرچم بلند کر سکیں گے-

Latest Indian news

Popular Stories

error: Content is protected !!